اسلام آباد کے احتجاجی کیمپ میں بارہا شرکت سے بلوچ خواتین کے نڈر ہونے کا ثبوت ملتا رہا اور حال ہی میں جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والی اکٹھی پانچ خواتین کی ڈپٹی کمشنر تعیناتی کی خبر آئی تو اندازہ ہوا کہ بلوچستان کی لڑکیاں کتنی باہمت اور باشعور ہیں، جو تمام تر معاشرتی رکاوٹوں کے باوجود صوبے کی ترقی اور خوشحالی پر اپنا ایک نظریہ رکھتی ہیں۔
ان پانچ خواتین ڈپٹی کمشنروں میں عائشہ زہری، بتول اسدی، فریدہ ترین، حمیرا بلوچ اور روحانہ کاکڑ شامل ہیں، جنہیں بلوچستان کے مختلف اضلاع میں تقرریاں دی گئی ہیں۔
عائشہ زہری آواران میں، بتول اسدی نصیر آباد میں، فریدہ ترین صحبت پور، حمیرا بلوچ لسبیلہ اور روحانہ کاکڑ کو ڈپٹی کمشنر حب چوکی تعینات کیا گیا ہے۔
اس فیچر کی تحریر کے دوران مزید ایک تعیناتی عمل میں آئی جو اسسٹنٹ کمشنر سریاب ماریہ شمعون کی ہے، جن کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔
بلوچستان حکومت کے اس اقدام کو مبصرین ایک خوش آئند قدم قرار دے رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ترجمان جناب جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان طویل عرصے سے پاکستان کی سیاست میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ صوبے کی موجودہ سیاسی صورت حال میں والدین اپنی بیٹیوں کو بھی تعلیم دینا اہم سمجھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہیں۔ ضلع مکران کا شمار پاکستان بھر میں تعلیم کے اعتبار سے آٹھویں نمبر پر ہوتا ہے جبکہ صوبہ بھر میں کیچ اول نمبر پر ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صوبہ بلوچستان، اپنی جمہوری اور انقلابی اقدار کے باعث اتھل پتھل کا شکار رہا ہے اور اب والدین اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مقابلے کے امتحانوں میں بھی سر فہرست دیکھنا چاہتے ہیں اور خواتین ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنروں کی تعیناتی اسی کی جانب ایک مضبوط قدم ہے۔‘
سماجی کارکن اور مبصر سید علی شاہ بھی اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں آج بھی ’نو گو ایریاز‘ موجود ہیں اور ان دہشت زدہ علاقوں میں مسلح کارروائیاں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن خواتین کا احترام ہمیشہ کیا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح عمر رسیدہ افراد اور بچوں کو کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا اور اپنی اقدار کو ہمیشہ ملحوظ رکھا گیا ہے۔
’ایسے میں ان خواتین ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی وقت کا درست سمت میں فیصلہ ہے۔ یہ پوسٹ انتظامی امور پر مرکوز ہوتی ہیں اور انہیں صوبے کے تقریباً 36 اضلاع میں سے پانچ خواتین کے حوالے کیا جانا بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ ماضی میں بھی خواتین کی تقرریاں ہوئی ہیں لیکن بیک وقت پانچ تعیناتیاں ایک انقلاب سے کم نہیں اور اس طرح مزید خواتین طلبہ کی حوصلہ افزائی ہو گی۔‘
یاد رہے کہ راحیلہ درانی بلوچستان کی تاریخ میں پہلی سپیکر صوبائی اسمبلی رہی ہیں اور اس وقت وزیر تعلیم ہیں۔
سب سے پہلے عائشہ زہری کو 2021 میں سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے ڈسٹرکٹ نصیرآباد کا ڈپٹی کمشنر مقرر کیا۔ عائشہ زہری پیشے کے اعتبار سے الیکٹریکل انجینیئر ہیں۔ انہوں نے 2015 میں خضدار انجینیئرنگ یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ عائشہ کے پر عزم اور با ہمت ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ انجینیئرنگ یونیورسٹی خضدار میں داخل ہوئیں تو ان کی کلاس میں وہ صرف دو طالبات تھیں۔
ان کا تعلق زہری قبیلے سے ہے اور ان کے والد حاجی محمد رمضان اپنے قبیلے کے سردار ہیں۔ وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اوراب ضعیف العمری کے باعث ان کے بیٹے ان کا کاروبار سنبھال رہے ہیں۔
عائشہ سے قبل بھی ان کے زہری قبیلے سے لوگ بیوروکریسی میں رہ چکے ہیں لیکن عائشہ براہوی بولنے والی پہلی زہری خاتون ہیں جنہوں نے اس میں قدم رکھا۔ ان کی پیدائش و پرورش ضلع خضدار کی ہے۔ عائشہ پڑھائی میں شروع ہی سے ٹاپ کرتی آئی ہیں اور والد کی حوصلہ افزائی ان کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پبلک سروس میں وہ محترمہ بےنظیر بھٹو اور نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم جیسنڈا آرڈن سے متاثر ہیں۔
گذشتہ برس ہی ان کی شادی ہوئی ہے اور ان کے شوہر بھی سرکاری افسر ہیں۔ آواران امن و امان کے لحاظ سے حساس ضلع ہے لیکن عائشہ پرعزم ہیں کہ وہ یہاں اپنے فرائض قدم جما کر نبھائیں گی۔
کیا ان پبلک سروس افسران کو حساس علاقوں اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی بھی تربیت دی جاتی ہے، اس سوال پر عائشہ زہری نے بتایا کہ ملٹری اٹیچمنٹ کے نام سے مختلف آرمی ونگز کے ساتھ ان کی ٹریننگ ہوتی ہے، جو ’پری سروس ٹریننگ‘ کہلاتی ہے۔ اس دوران مشتعل ہجوم سے نمٹنا، شورش زدہ علاقوں میں ڈیوٹی کرنے کے اصول اور امن و امان کی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھی ملٹری ٹریننگ دی جاتی ہے۔
ایک سیاسی کارکن ہونے کی حیثیت سے وہ تعلیم کے دوران خضدار یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹیوں کا حصہ رہی ہیں۔ بولان کے مون سون ریسکیو آپریشن سے لے کر پاکستان افغان بارڈر کے علاقے برابچہ کے پہاڑوں سے 24 گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد اغوا برائے تاوان کے کیس کو حل کرنے تک ان کی جدوجہد میں ان کا خاتون ہونا کہیں رکاوٹ نہیں بنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح بتول اسدی جو ڈی سی نصیر آباد مقرر کی گئی ہیں، کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے ہے۔ وہ ہزارہ کمیونٹی کے عالم دین اور جامعہ امام جعفر صادق کے پرنسپل جمعہ اسدی کی بیٹی ہیں۔ ان کا تعلق علم دوست گھرانے سے ہے اور ان کے شوہر بھی صوبائی بیورکریسی سے منسلک ہیں۔
بتول اسدی نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ پبلک سکول سے حاصل کی اور ایم اے انگلش لٹریچر سردار بہادر خان ویمنز یونیورسٹی سے کیا۔
انہوں نے بتایا کہ سول سروسز میں آنے کی بڑی وجہ ان کے شوہر رہے جو سول سروسز امتحانات کے کوچ بھی ہیں۔ انہی نے بتول کو بھی اس امتحان کی تیاری پر آمادہ کیا، لیکن سماجی سطح پر انہیں کئی رکاوٹوں سے بھی گزرنا پڑا۔
بتول اسدی طلبہ سیاست میں تو کبھی شامل نہ رہیں لیکن تقریری مقابلوں میں ضرور شرکت کرتی تھیں۔ شوہر کی سپورٹ کے باوجود جب وہ سول سروس امتحانات کی تیاری میں مصروف ہوتیں تو یہ اعتراض ان کا پیچھا کرتا کہ عورتوں کا سول سروس میں کیا کام؟
لیکن ان کے سی ایس ایس میں ٹاپ کرنے پر لوگوں کے اعتراض ازخود ہی تھم گئے اور وہ کئی نوجوانوں کے لیے مثال بنیں۔
فیلڈ میں چیلنجوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی ماہ میں کوئی ہمیں فیلڈ میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات کرنے پر راضی نہ ہوتا، لیکن پھر ان کے پہلے کمشنر قمبر دشتی نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے انہیں اسسٹنٹ کمشنر مقرر کیا۔ ان کی اس تعیناتی کو ایک عجوبہ سمجھا جاتا تھا، لیکن وقت نے یہ رجحان مثبت تبدیلی میں بدل ڈالا اور لڑکیاں اس امتحان میں بیٹھنا شروع ہوئیں۔‘
بتول اسدی کا کہنا ہے کہ ’بیشک یہ پانچ چھ ڈی سی اور اے سی خواتین کی تعیناتیاں ہو تو گئی ہیں لیکن صنفی مساوات کے رجحان کو رائج ہونے میں ابھی وقت درکار ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’اب اتنا ضرور ہوا ہے کہ بلوچ خواتین اپنے مسائل کے حل کے لیے ہم سے رابطہ کرتی ہیں اور بلا جھجک ہم تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ جہاں پچھلے دس برسوں میں کوئی خواتین کو اسٹنٹ کمشنر تعینات کرنے پر راضی نہ تھا، اب ایک دہائی بعد اسی صوبے کی انتظامیہ نے پانچ خواتین کو ان عہدوں پر مقرر کیا ہے، اس طرح اگلی دہائی بھی خواتین کی ترقی کی ضامن ہو گی۔‘
روحانہ کاکڑ کو ڈی سی حب چوکی تعینات کیا گیا ہے، ان کا تعلق پشین سے ہے جبکہ ننھیال افغان ہے۔ ان کی پرورش کوئٹہ شہر کی ہے۔ ان سے پہلے خاندان میں کوئی بیوروکریسی سے منسلک نہیں رہا۔ روحانہ کاکڑ کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ریلوے کالونی سے ہوئی، پھر بی ایس کمپیوٹر سائنس کیا اور اس کے بعد ایم بی اے بلوچستان یونیورسٹی سے کیا۔
سول سروسز میں قدم رکھنے کی وجہ ان کے والد ہیں، جنہوں نے تعلیمِ نسواں کے لیے سماجی رویوں کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’والد نے سماجی قدامت پسند رویوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی بیٹی کے دوست کا کردار ادا کیا اور ہر قدم پر ساتھ کھڑے رہے۔‘
فیلڈ میں روحانہ کے مطابق: ’روز ہی ایک نئے مقابلے اور چیلنج کا سامنا رہتا ہے اور اگر کسی دن اپنے چیلنج سے نمٹنے میں کوئی کسر رہ جائے تو اس دن ملال سا رہتا ہے۔‘
روحانہ کا کہنا تھا کہ سماجی سطح پر خواتین پر عوامی اعتماد کی نئی تاریخ رقم ہونا شروع ہو گئی ہے اور آج کی کوشش اور لگن ہی مستقبل میں خواتین کو انتظامی امور سے جوڑنے میں سنگ میل ثابت ہو گی۔
روحانہ کاکڑ پر امید ہیں کہ ’اگلی چند دہائیوں میں یقیناً ہمارے والد، بھائی اور شوہر اپنے گھر کی خواتین کو خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دے رہے ہوں گے۔‘
حمیرا بلوچ جن کی پوسٹنگ ڈی سی لسبیلہ کے طور پر کی گئی ہے، کا تعلق ایک بلوچ خاندان سے ہے۔ حمیرا نے بتایا کہ وہ ’سکول کے زمانے سے فلاحی کاموں میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ انہوں نے کامرس اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’میں نے اپنے علاقے کے لوگوں کی بہبود کو ممکن بنانے کے لیے سول سروسز کو اپنانے کا راستہ چنا تاکہ انتظامی امور کا حصہ بن سکوں اور ایک خاتون کی حیثیت سے صنفی مساوات کو مضبوط کر سکوں۔‘
انہیں اس تمام سفر میں اپنے گھر کے سبھی افراد کا تعاون ملتا رہا۔ خواتین کی اس تعیناتی سے وہ بھی متفق ہیں کہ ’اب ہماری عورتیں بلا جھجک اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمارے دفاتر میں آتی جاتی رہیں گی اور اس اعتماد کے ساتھ کہ ان کی بات ممکنہ حد تک سنی جا سکے گی۔‘ وہ جب صنفی مساوات کی بات کرتی ہیں تو بشمول خواجہ سرا کے کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ملازمت کے دوران خواتین، بچوں اور خواجہ سراؤں سے متعلق اداروں کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں تاکہ ان کے مسائل کو بہتر طریقے سے نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ ان کا ٹریک رکھتے ہوئے حل بھی کرتے رہیں۔
حمیرا کا خیال ہے کہ ’فیلڈ کے چیلنجز مردوں کی نسبت خواتین ڈپٹی کمشنرز کے لیے زیادہ بڑے ہیں، لیکن اب ان سٹیریو ٹائپ رویوں میں قدرے بہتری آ رہی ہے، کیونکہ اب لوگ مردوں کے شانہ بشانہ پر اعتماد خواتین کو بھی دیکھ رہے ہیں۔‘
اپنی ملازمت سے جڑی تربیت کے بارے میں بھی حمیرا نے آگاہ کیا کہ چھ ماہ کی ایک ٹریننگ پشاور میں دی جاتی ہے، جس کے دوران انتظامی امور، سٹریس مینیجمنٹ، ریوینیو کے مسائل اور دفتری تعلقات عامہ کی تربیت دی جاتی ہے۔
1972 سے اب تک بلوچ خواتین نے صوبے کی بیوروکریسی کی تاریخ کو اپنی موجودگی سے بھی رقم کیا ہے۔
فضیلہ عالیانی 1972 میں صوبے کی پہلی خاتون رکن اسمبلی بنی تھیں۔ انہوں نے 1976 میں صحت، تعلیم اور سوشل ویلفیئر کا قلمدان سنبھالا تھا۔ اس کے علاوہ وہ وفاقی پبلک سروس کمیشن اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی بھی رکن رہی ہیں۔
دوسری طرف سائرہ عطا کا نام بھی بلوچستان بیوروکریسی کا اہم نام ہے۔ وہ 1998 میں صوبائی بیوروکریسی کا حصہ بنیں اور پہلی خاتون سیکریٹری کا عہدہ بھی حاصل کیا۔
سائرہ عطا کے بعد مزید جو ایک خاتون بلوچستان کے سیاسی افق پر ابھریں، وہ محترمہ زبیدہ جلال ہیں۔ زبیدہ جلال نے 2002 کے انتخابات مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے لڑے اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی وفاقی کابینہ میں وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالا۔ انہوں نے 2004 میں ملک کے تمام مذہبی مدارس کو مین سٹریم ایجوکیشن سے جوڑنے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔
بلوچستان کی مین سٹریم بیوروکریسی میں خواتین کی حالیہ شمولیت کو جینڈر اور سوشل ڈویلپمنٹ کنسلٹنٹ ریحانہ شیخ بھی ایک بہتر قدم سمجھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت بلوچستان پولیس میں خواتین کی بھرتیوں اور تربیتی کاموں پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔‘
بقول ریحانہ: ’ملک کی بیوروکریسی اور لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت صرف 21 فیصد ہے اور اس میں بھی بلوچ خواتین کا حصہ بہت کم ہے۔ مجموعی طور پر خواتین کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے جاتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کی شمولیت اور کارکردگی دونوں پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔‘