بنگلہ دیش میں طلبہ احتجاجی تحریک کا چہرہ ناہید اسلام کون ہیں؟

سوشیالوجی کے 26 سالہ طالب علم ناہید اسلام کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے لیے مخصوص کوٹہ نظام کی منسوخی کے لیے احتجاج کا آغاز دو جولائی 2024 کو ہوا، جس کی باگ ڈور طلبہ کے ہاتھ میں تھی۔

اس تحریک کے ایک مرکزی کردار 26 سالہ ناہید اسلام ہیں۔ سوشیالوجی کے طالب علم ناہید کے بارے میں بنگلہ دیش کے میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ اس نرم گو نوجوان نے ملک کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دور اقتدار کے خاتمے کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔

ناہید اسلام بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کے ایک نیشنل کوآرڈینیٹر اور حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ملک میں آئندہ عبوری نظام حکومت کے لیے جاری کوششوں میں شامل ہیں۔

ناہید اسلام ڈھاکہ میں 1998 میں پیدا ہوئے۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے چھوٹے بھائی کا نام نکیب ہے۔ ان کے والد ایک استاد اور والدہ گھریلو خاتون ہیں۔

ان کے بھائی نکیب اسلام نے ناہید کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ زبردست سٹیمنا رکھتے ہیں۔ انہیں پولیس نے حراست میں بھی لیا، اتنا مارا پیٹا بھی کے وہ بےہوش ہو گئے لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

اگرچہ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم ہیں لیکن وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن کے طور پر بھی شہرت رکھتے ہیں۔

ناہید کے نام سے سوشل میڈیا خصوصا فیس بک پر کئی پیج بنے ہوئے ہیں جن کی باظابطہ حیثیت تو واضح نہیں لیکن ان پر احتجاج سے متعلق خبریں باقاعدگی سے سے شیئر کی جاتی ہیں۔ ایک ایسے ہی اکاونٹ پر ان کے 17 ہزار سے زائد فالورز ہیں۔

ناہید اسلام اور دیگر طلبہ رہنماؤں کے اس موقف کو اس وقت تقویت ملی جب انہوں نے ملک میں رائج کوٹہ نظام کے خلاف اپنے پرزور دلائل میں کہا کہ اس امتیازی نظام سے اہل نوجوان ملازمتوں سے محروم ہیں۔

بنگلہ دیش کے طلبہ کی تحریک کا آغاز تو مخصوص کوٹہ سسٹم کی منسوخی کے لیے شروع ہوا تھا لیکن جب احتجاجی ریلیوں کے دوران حکومت پر تنقید میں اضافہ ہوا تو شیخ حسینہ نے بھی طلبہ کے لیے سخت الفاظ کا استعمال کیا۔

ناہید اسلام کو جولائی کے وسط میں پہلے ملکی اور پھر بین الاقوامی میڈیا میں اس وقت شہرت ملی، جب پولیس نے انہیں اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے کچھ دیگر طالب علموں کو گرفتار کیا۔

بعد میں ناہید اسلام نے اپنے ویڈیو انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور وہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی زندگیوں سے متعلق فکرمند ہیں۔

اس کے بعد بنگلہ دیش میں سوشل میڈیا کے ذریعے ناہید اسلام سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا گیا۔

بنگلہ دیش میں 18 جولائی تک طلبہ احتجاج اتنی شدت اختیار کر چکا تھا کہ حکومت نے اسے مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی لیکن ناہید اسلام اور ان کے ساتھیوں نے اپنی احتجاجی تحریک کو متحرک رکھا۔ 

احتجاج کے دوران اموات پر بنگلہ دیش کی حکومت نے 31 جولائی کو ’یوم سوگ‘ منانے کا اعلان بھی کیا لیکن ناہید اسلام اور ان کے ساتھیوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنے مطالبات میں یہ بھی شامل کر لیا کہ جو ان اموات کے ذمہ دار ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)



چار جولائی کا دن بنگلہ دیش میں سب سے پرتشدد رہا، جب ایک ہی دن میں جھڑپوں کے دوران لگ بھگ 100 افراد کی جان گئی، جس کے بعد طلبہ نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے کے لیے دباؤ بڑھا دیا۔

جب پانچ اگست کو شیخ حسینہ واجد مستعفی ہو کر ملک چھوڑ کر چلی گئیں تو بنگلہ دیش کے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ناہید اسلام کے نام کے ساتھ یہ تبصرے آنا شروع ہو گئے کہ یہ وہ نرم گو نوجوان ہیں، جنہوں نے شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور اقتدار کے خاتمے کی طلبہ تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ناہید اسلام اور ان کے ساتھ طالب علم پس منظر میں نہیں گئے بلکہ وہ اب بھی ملک میں جلد عبوری حکومت کے قیام کے لیے متحرک ہیں اور منگل کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں انہوں نے عبوری حکومت کے لیے نام بھی تجویز کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل