غذائیت کی کمی کے شکار پاکستانی بچوں کا ادھار وقت

غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال سات اعشاریہ چھ ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا تین فیصد نقصان ہوتا ہے۔

25 مئی، 2018 کی اس تصویر میں پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر مٹھی کے سول ہسپتال میں بچوں کے وارڈ کا منظر(اے ایف پی)

کئی دہائیوں سے وسیع پیمانے پر غذائی قلت پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان 98 لاکھ بچوں کے ساتھ سٹنٹنگ ( ذہنی عدم نشو و نما) کی عالمی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے۔

جبکہ غذائی قلت پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 77 ہزار بچوں کی اموات کی ذمہ دار ہے، یہ شرح بچوں کی اموات کے 50 فیصد کے قریب ہے۔

اس سے زندہ بچ جانے والے بچے کمزور تعلیمی اور جسمانی ارتقا کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے کم تعلیم اور مزدوروں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اور صحت عامہ کے نظام پر بڑا دباؤ پڑتا ہے۔

غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال 7.6 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا تین فیصد نقصان ہوتا ہے۔

پاکستان میں روایتی طور پر غذائیت کو کم ہی ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ اسے 1973 میں پلاننگ کمیشن میں ادارہ جاتی شکل دی گئی تاہم اس کے باوجود دو دہائیوں تک اس معاملے میں بہت کم بہتری نظر آئی، جس کی بنیادی وجہ تکنیکی اور آپریشنل مہارت کی کمی تھی۔

نیوٹریشن کا شعبہ تین دہائیوں بعد یعنی 2002 میں اس وقت فعال ہوا جب وزارت صحت نے اسے ذیلی شعبے کے طور پر متعارف کروایا۔

2002 میں وزارت صحت میں ایک ’نیوٹریشن ونگ‘ کو شامل کیا گیا تھا تاکہ پاکستان غذائیت میں کمی اور ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) کی جانب پیش رفت کو تیز کیا جا سکے۔

تاہم 2010 کے بعد وفاق نے صحت کے شعبوں کو خود مختاری کے تحت صوبوں کو سونپ دیا۔ اس پیش رفت کے ایک سال بعد یعنی 2011 کے نیشنل نیوٹریشن سروے نے صوبوں میں غذائیت کی کمی کے حوالے سے غیر مساوی اشاریے ظاہر کیے۔

2012 میں نیشنل ہیلتھ سروس ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کی وزارت (ایم این ایچ ایس آر ایس) کی تشکیل نو کی گئی اور نیوٹریشن ونگ کو دوبارہ قائم کیا گیا۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کی وزارتوں سمیت ایک سے زیادہ شعبوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔

وزارت منصوبہ بندی کے پاس مختلف وزارتوں کو مربوط کرنے کا بنیادی کردار ہے۔

وزارتیں اور صحت کے ڈائریکٹوریٹ اپنے پلیٹ فارمز کے ذریعے ضروری غذائیت کے فروغ اور خدمات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، جن کے پاس خدمت کی فراہمی اور رہنما خطوط کے ذریعے براہ راست مداخلت کی تکنیکی اور آپریشنل مہارت ہوتی ہے۔

مزید برآں زیادہ تر قانون سازی اور پالیسیاں صحت کے نظام کے نفاذ سے جڑی ہوئی ہیں۔ کسی دوسری وزارت کے پاس حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں اور بچوں تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

اس شعبے میں علاقائی اور عالمی سطح پر مختلف ممالک جیسے سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، پیرو وغیرہ کی کامیابیوں کی کہانیاں موجود ہیں۔

متعلقہ وزارت صحت کے اندر نیوٹریشن ڈائریکٹوریٹ اور ڈویژن قائم کرکے ان ممالک نے غذائی قلت کی شرح کو کم کرنے میں بڑی کامیابیاں دکھائی ہیں۔

پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں غذائی قلت اور بیماریوں میں کمی کے ساتھ ساتھ بچے پیدا کرنے والی خواتین میں خون اور مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی کو دور کیا۔ یہ ایک طرح سے درست سمت میں نشانہ لگانے جیسا ہے۔

تاہم پاکستان میں یہ ایک بالکل مختلف کہانی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں غذائی قلت اور بیماریوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غذائی قلت کی اس فہرست میں عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر ہونے اور تمام گرتے ہوئے رجحانات کے اشاروں کے باوجود حکومتی بورڈ رومز میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ آیا ایم این ایچ ایس آر ایس یا پلاننگ کمیشن غذائیت کو بطور ایک شعبہ رکھنا بھی چاہیے یا نہیں۔

اس سے ملک کے مستقبل کے بارے میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ پلاننگ کمیشن کے پاس غذائیت کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تکنیکی یا آپریشنل صلاحیت نہیں ہے۔

فیصلہ سازوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ اس شعبے کو نظر انداز کرنے کے بڑے اور دیرپا نقصانات ہیں۔ ایسا زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔

جیسا کہ گرانٹ ایم برائٹ نے کہا تھا: ’آپ وہی کاٹتے ہیں جو آپ بوتے ہیں: زندگی ایک بومرنگ آلے کی طرح ہے۔ ہمارے خیالات، اعمال اور الفاظ جلد یا بدیر حیران کن اور واضح طور پر ہمارے پاس واپس لوٹے ہیں۔‘

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن شتر مرغ کی طرح ہم اپنے سر کو ریت میں دھنسا کر امید رکھتے ہیں کہ اس طرح طوفان گزر جائے گا۔

نوٹ: ڈاکٹر مہرین مجتبیٰ فری لانس کنسلٹنٹ ہیں جو ماحولیات اور صحت کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر