کراچی: سیاحت کے شوق کو ذریعہ معاش بنانے والی ’والدہ‘

فاطمہ علی ہنزہ، سکردو، کشمیر، سوات اوردوسرے علاقوں کی سیر کر چکی ہیں، جس دوران انہیں کئی بار خطرات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اب فاطمہ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر ٹوور گائیڈ کے طور کام کرتی ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی فاطمہ علی نے 16 سال کی عمر میں پاکستان کے شمالی علاقوں کا رخ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑوں سے عشق کر بیٹھیں۔

فاطمہ علی ہنزہ، سکردو، کشمیر، سوات اوردوسرے علاقوں کی سیر کر چکی ہیں، جس دوران انہیں کئی بار خطرات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اب فاطمہ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر ٹوور گائیڈ کے طور کام کرتی ہیں۔

’مایوں والے دن گھر پہنچی‘

ٹور گائیڈ فاطمہ علی کا سیاحت اور سیر و تفریح کے لیے جنوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عین اپنی شادی کی تقاریب کے دوران ملک کے شمالی علاقوں کی سیر کر رہی تھیں۔

اپنی شادی میں عین وقت پر پہنچنے کا دلچسپ قصہ انڈپینڈنٹ اردو کو سناتے ہوئے فاطمہ علی نے بتایا: ’ایسا بھی ہوا کہ میرے سیاحت کے شوق کی وجہ سے گھر والے مجھ سے ناراض ہوئے۔ میں اپنی مایوں کی رسم والے دن لمبے سفر کے بعد صبح گھر پہنچی اور شام میں رسومات ہونا تھیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں نے ابتدا میں اکیلے سفر بھی کیا اور کئی مرتبہ مختلف شمالی علاقوں کو ایکسپلور کیا۔ سیاحت کا شوق کب جنون بنا پتا ہی نہیں چلا۔‘

خطرناک واقعہ

فاطمہ علی کے شوق کی تکمیل کے راستے میں شادی اور بچے بھی حائل نہ ہو پائے اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے اور ماں بننے کے بعد بھی انہوں نے ملک کے شمالی علاقوں کی سیروں کے سلسلے جاری رکھے۔

انہوں نے اپنے بچوں کے ہمراہ شمالی علاقوں کا رخ کیا اور مشکل ترین راستوں پر سفر کیا، جن میں رتی گلی میں آف روڈ ٹریول، فیری میڈوز کے خطرناک راستے اور کٹورا لیک، جہاں گرمیوں میں بھی برف کی وجہ سے فیملیز نہیں جاتیں، اور کٹورا لیک پر ٹریکنگ شامل رہے۔

اسی سفر کے دوران پیش آنے والے ایک دل دہلا دینے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’بچے اور میں تین گھنٹے ٹریک کر چکے تھے، جب میرے بیٹے کا پاؤں پھسل گیا۔ میں نے ایک ہاتھ میں بیٹی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔

’اس وقت میں گھبرا گئی لیکن بیٹے نے درخت کی ٹہنی کا سہارا لیا اور میں نے ہمت سے کام لیا اور ہم اس خطرے سے بچ نکلے۔‘

سیاحت کا شوق اب ذریعہ معاش 

شوق کی تکمیل کی غرض سے پاکستان کے کئی برسوں تک شمالی علاقوں کی سیر نے انہیں نئے راستوں اور معاشرے سے متعلق خوب معلومات حاصل ہوئیں اور انہیں تجربات کی بنا پر انہوں نے سیاحت کو پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

فاطمہ علی کا کہنا ہے: ’اب اس سیاحتی شوق نے مجھے تجربہ دیا کہ میں ملک بھر سے لوگوں کو ٹوور گائیڈنس دیتی ہوں اور سال میں میرے متعدد ٹرپس ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ شوق نے انہیں بااختیار خاتون بننے کا موقع فراہم کیا اور اب انہوں نے سیاحت اور سیر و تفریح کو ہی اپنی اور خاندان کی معاش کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

’میں ہر مہینے دو سے تین ٹرپس کا انتظام کرتی ہوں اور باقاعدہ ایک ٹور کمپنی چلا رہی ہوں، جس میں سیاحت کو فروغ دینے کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں سیاحت کی احتیاطی تدابیر کو بھی سر فہرست رکھتی ہوں۔‘

شمالی علاقوں میں سفر کی احتیاط 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فاطمہ علی کہتی ہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقے زیادہ تر پہاڑی ہیں اس لیے وہاں سفر کی غرض سے جانے والوں کو چند احتیاطی تدابیر پر صورت عمل کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سیاحوں کو اپنے ساتھ فرسٹ ایڈ کا سامان، جن میں دوسری اشیا کے علاوہ ضروری ادویات جیسے الٹی اور بخار وغیرہ کی دوائیں رکھنی چاہییں۔  

اسی طرح انہوں نے کہا کہ سیاح خود کو گرم رکھنے کے لیے اضافی جرابیں اور تھرمل سوٹ بھی رکھنا نہ بھولیں۔

انہوں نے سیاحوں کو جرابوں کے نیچے پیروں پر ایلمونیم فوئل لپیٹنے کا مشورہ دیا، جو پاؤں کو سردی کی وجہ سے جمنے سے بچاتی ہے۔

’سیاحوں کو چاہیے کہ سردیوں میں شمالی علاقہ جات کا سفر کرتے ہوئے سر درد کی بام بھی ضرور اپنے ساتھ رکھیں، جب کہ جس علاقے میں جایا جا رہا ہے وہاں ریسکیو ادارے کے فون نمبروں کا سیاحوں کے پاس ہونا بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ گرمیوں میں جلد کی حفاظت کے لیے ضروری لوشنز اور دوسرا سامان جیسے چشمے وغیرہ ساتھ رکھنا ضروری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر