کارگل سے سندور تک

ہماری ہی نسل نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے گلی کوچوں سکولوں کالجوں، کھیل کے میدانوں بازاروں اور اپنے گھروں کو میدان جنگ بنتے دیکھا۔ سرد جنگ کے بعد نیو ورلڈ آرڈر اور نائن الیون کے بعد کی دنیا ہماری ہی زمین سے ہمیں روندتی اکھیڑتی گزری۔

14 مئی 2025 کو آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کو ملک کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے ساتھ صوبہ پنجاب کے سیالکوٹ میں پسرور چھاؤنی کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے (آئی ایس پی آر/ اے ایف پی)

ہماری نسل نے اپنے بچپن میں بڑے بہن بھائیوں سے 1971 اور 1965 کی جنگ کے واقعات سنے تھے۔ والدین اور بزرگوں سے 1947 کے فسادات اور نقل مکانی کے دکھ، کتابوں میں 1857 کے غدر کی تاریخ پڑھی تھی اور ہمارے پڑوس میں افغان روس جنگ جاری تھی۔

ہماری ہی نسل نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے گلی کوچوں سکولوں کالجوں، کھیل کے میدانوں بازاروں اور اپنے گھروں کو میدان جنگ بنتے دیکھا۔ سرد جنگ کے بعد نیو ورلڈ آرڈر اور نائن الیون کے بعد کی دنیا ہماری ہی زمین سے ہمیں روندتی اکھیڑتی گزری۔

کارگل کی جنگ ہوئی تو میں یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے پہلے سال میں تھی۔ جنگ ہوئی، جنگ بندی ہوئی اور گزر گئی۔ ایک روز سر احسن اختر ناز نے اپنے دفتر میں بلا کر کہا کہ ایک ریسرچ کریں گی؟ کارگل جنگ میں انڈین میڈیا کی فتح اور پاکستانی میڈیا کی شکست کی وجوہات پہ۔

اس وقت پاکستانی میڈیا کا مطلب چار اردو اور اتنے ہی انگریزی اخبار اور سرکاری ذرائع ابلاغ تھے۔ وجہ سامنے تھی۔ میڈیا کو پابہ زنجیر کیا گیا تو وہ کیا جنگ لڑتا ؟ مگر چھوٹا منہ بڑی بات لگی اور اس بھاری پتھر کو چھوڑ دیا۔

یہ بات اس وقت سمجھ لی گئی تھی اور اس کے بعد پاکستان میں میڈیا سائنس کے راستے کھلتے گئے۔ نجی چینلز کھلے، یونیورسٹیوں میں میڈیا کا مضمون اور اس کی ذیلی شاخیں اہم ترین ڈیپارٹمنٹ بنتے گئے، سوشل میڈیا آیا اور کہانی مکمل طور پہ بدل گئی۔

میڈیا کا گلا تھوڑا تھوڑا گھونٹا جاتا رہا مگر پھر بھی یہ سفر چلتا رہا۔ اس سفر میں جو اہم ترین چیز تھی وہ ہر تعلیمی ادارے میں اخلاقیات کا مضمون تھا۔ میڈیا ایتھیکس، ہر ذیلی شاخ کے لیے اخلاقیات پڑھائی جاتی رہی۔

پنجاب یونیورسٹی میں ڈیجیٹل میڈیا کا ادارہ بنا تو چند سمسٹر میں نے بھی پڑھائے جس کی بنیادی وجہ یہ ہی تھی کہ نئی نسل کو اخلاقیات پڑھائی جائیں۔ میرے طلبا مجھ سے زیادہ سمارٹ تھے چنانچہ میرا سارا زور انہیں بنیادی انسانی اخلاقیات سکھانے پہ ہی رہا۔

سنسنی خیزی اور ویوز کے لیے کانٹینٹ بنانے کو ہمارے معاشرے نے بھی رد کیا۔ ٹاک شوز میں تھپڑ گالی کے کلچر کو شدید ناپسند کیا جاتا رہا۔ یہ ٹرینڈ آیا مگر رد کر دیا گیا۔ گو ایسے لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی جنہیں چورن فروشی کا شوق تھا اور جو مہذب صحافت کی جگہ سیٹ پہ اچھلنے کودنے اور غیر مصدقہ خبروں پہ سر دھننے کے شوقین تھے۔

یہاں ہمارے ناظرین اور سنجیدہ طبقے، سول سوسائٹی نے ہمیشہ آواز اٹھائی۔ چنانچہ ہمارا میڈیا پچھلی چوتھائی صدی میں آنے والے آئی ٹی کے انقلاب میں کسی نہ کسی طور اخلاقیات کا دامن پکڑے ہی رہا۔

اس کا سہرا ہمارے ناظرین اور اساتذہ کے سر جاتا ہے۔ باقی جس جس کو سہرا سجانے کا شوق ہے وہ بھی سجا سکتا ہے کیونکہ تخریب اور تعمیر دونوں ہی میں کسی نہ کسی صورت پورا معاشرہ شامل ہوتا ہے۔

اب بات کرتے ہیں 88 گھنٹے پہ محیط انڈیا پاکستان کی جنگ کی۔ یہ جنگ ٹیکنالوجی اور میڈیا کی جنگ تھی۔ یہ بات کہنے سے مجھے میرا امن پسند دماغ بالکل نہیں روک سکتا کہ یہ جنگ پاکستانی میڈیا جیت گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مین سٹریم میڈیا میں مجھے جھوٹی خبریں نظر نہیں آئیں۔ سوشل میڈیا پہ گالم گلوچ میں بھی پاکستان کی طرف سے کہیں نہ کہیں اخلاقیات کا پلڑا بھاری رہا ۔ خوف اور جنگی جنون بھی نظر نہیں آیا۔

کچھ چینلز پہ کچھ اینکرز اور نیوز کاسٹرز نے چلانے کی کوشش کی مگر ان کی باڈی لینگویج ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ ہم نسبتا مہذب صحافی ثابت ہوئے۔

حیرت اس بات کی ہے کہ جس وقت کراچی اور لاہور کی بندرگاہ تباہ ہونے کی خبریں دیکھ کے ہمارے انڈین دوست ہماری خیریت پوچھ رہے تھے، ہم امرتسری ہریسے کے برابر میں قصوری فالودہ کھا رہے تھے اور خود بھی سوچ رہے تھے یہ جینا بھی کیا جینا ہے ببوا؟

جنگ بری چیز ہے، جنگ کی چنگاریاں بھڑکانا صحافی کا کام نہیں۔ تالیاں بجا بجا کے نہتے لوگوں کو مارنے کی دعوت دینا بے حد افسوسناک حرکت ہے۔ صحافی کا کام سچ لکھنا ہے صرف سچ۔

باقی رہے میمز بنانے والے جگت باز، تو ان کو کیا کہیں؟ اس جنگ میں خواتین بھی سامنے تھیں ۔ جنگ کی ابتدا بھی سیندور کے نام سے کی گئی عرض صرف اتنی ہے کہ اس معنی خیز نام سے خواتین کی عزت کے بارے میں گھٹیا میمز بنانے سے اجتناب کیجئے گا۔

ادھر تو عقل کا ایسا توڑا پڑا ہے کہ کرنل صوفیہ قریشی کو بھی دہشت گردوں کی بہن کہہ دیا۔ اس سے بڑی شکست اور اعتراف شکست کیا ہو گا؟ رافیل گرنا نہ گرنا تو ایک طرف گیا، پائلٹ کا گرفتار ہونا بھی پرے رکھیے، اپنی ہی فوج کی  ترجمان کو سارے پھول تمغے لگا کے ہماری بہن بنا دیا۔ ہم دہشت گرد نہیں ہاں انسانیت کے لازوال رشتے کے تحت صوفیہ ہماری بہن ہیں۔

جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ صحافی کسی سرحد کا پابند نہیں، مگر سرحد ہوتی ہے اور سرحد کا احترام ضروری ہوتا ہے۔ سرحدوں کا احترام کیجئے، پانی اور کشمیر کا مسئلہ حل کیجئے، سیندور بھی بچائیے اور اپنے شہریوں کو بھی اپنائیے (یہ مشورہ دونوں ملکوں کے لیے ہے)، مذہب کی بنا پہ نفرت کی سیاست ووٹ تو دلا دے گی مگر خطے کو ایک ایسی آگ میں دھکیل دے گی جسے نسلیں بھگتیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ