لائن آف کنٹرول کے باسی کشیدگی میں خود کو کیسے بچاتے ہیں؟

انڈیا کے حالیہ حملوں کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے جورا جا کر وہاں کے رہائشیوں سے جاننے کی کوشش کہ وہ انڈین فائرنگ اور گولہ باری سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حدود میں واقع سرحدی علاقے جورا کے رہائشی سرحد پار فائرنگ سے بچنے کے لیے حفاظتی بنکروں میں پناہ لیتے ہیں۔

یہاں رہنے والے افراد متعدد مرتبہ فائرنگ، گولہ باری اور حالات کشیدہ ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں اور یہی صورت حال انڈیا کے ساتھ ہونے والی حالیہ کشیدگی کے دوران بھی پیش آئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے لائن آف کنٹرول کے مکینوں کے حالات جاننے کے لیے وہاں کا دورہ کیا اور دیکھا کہ مقامی رہائشی انڈین فائرنگ اور گولہ باری سے خود کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔

ضلع وادی نیلم میں واقع جورا میں بنائے گئے بیشتر بنکرز مقامی افراد نے خود مٹی، پتھروں اور کنکریٹ کی مدد سے تیار کیے ہیں جبکہ کچھ جگہوں پر قدرتی غاروں کو بھی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

چونکہ ان بنکرز کا مقصد جان بچانا ہے، لہذا انہیں اس طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ سرحد پار سے یہ نظر نہ آئیں اور یہاں کے رہائشی فائرنگ یا گولہ باری کے دوران کچھ وقت محفوظ طریقے سے گزار سکیں۔

جورا کے رہائشی میر کلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اپنے گھر کے قریب یا زیرِ زمین ایسے بنکرز کا انتظام رکھتے ہیں، جن میں کھانے پینے کا کچھ سامان، پانی، چادر اور ابتدائی طبی امداد موجود ہوتی ہے۔ جیسے ہی سرحد پار سے فائرنگ کی آواز آتی ہے، پورا خاندان اپنے بنکر کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔

بقول میر کلیم: انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالات جب بھی کشیدگی اختیار کرتے ہیں تو ’فائرنگ کا آغاز ہوتے ہی وہ فیملی کے ہمراہ کنکریٹ کے بنکر کی طرف اپنی جان بچانے کے لیے بھاگتے ہیں۔‘ یہ بنکر ان کے گھر سے بالکل کچھ سیکنڈز کے فاصلے پر واقع ہے۔

کچھ بنکرز اتنے مضبوط بنائے گئے ہیں کہ وہ کئی روز کی مسلسل گولہ باری برداشت کر سکتے ہیں جبکہ ان کے اندر وینٹی لیشن کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ ہوا کا گزر ہو سکے۔

تاہم میر کلیم کے گھر کے نیچے بنایا گیا کنکریٹ کا بنکر گولہ باری سے گرنے کا خدشہ بھی ہے۔

دوسری جانب ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے اہل خانہ کے پاس جان بچانے کے لیے چار سے پانچ منٹ ہوں تو وہ ایک قدرتی بنکر میں چلے جاتے ہیں، جہاں صرف بیٹھ کر یا پیٹ کے بل رینگ کر ہی جایا جا سکتا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی