’ گولڈن ڈوم‘ ٹرمپ کی سب سے تباہ کن حماقت کے طور پر یاد رکھا جائے گا

اگر ’گولڈن ڈوم‘ امریکہ کی حفاظت کرے گا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حفاظت کس سے ہو گی؟ ایک منطقی جواب یہ ہو سکتا ہے کہ کسی غیر متوقع دشمن سے، مگر اگر ٹرمپ ان سب سے دوستی کے خواہاں ہیں تو پھر خطرہ کس سے ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 23 مئی 2025 کو میری لینڈ میں ایئر فورس ون پر سوار ہونے جا رہے ہیں (سول لیوب/ اے ایف پی)

اوول آفس میں لگی رونالڈ ریگن کی مسکراتی تصویر کے نیچے، صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اُن کے پیشرو کا امریکہ کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا گیا ’سٹار وارز‘ کے جامع میزائل دفاعی نظام کا خواب بالآخر حقیقت بننے جا رہا ہے۔

ٹرمپ اسے ’گولڈن ڈوم‘ کا نام دیتے ہیں  اوریہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو ٹرمپ کی شخصیت، اندازِ حکمرانی یا سوچ کی مخصوص خصوصیات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اور یہ کوئی اچھی بات نہیں۔

سب سے پہلے تو یہ منصوبہ ’گولڈن‘ ہی ہونا تھا — کیونکہ ٹرمپ کو سونے سے ویسی ہی جنون کی حد تک رغبت ہے جیسی فرانس کے بادشاہ لوئی 14 ویں کو تھی۔ ان کا دفتر رفتہ رفتہ اصل معنوں میں چمکدار اور نمایاں طور پر سنہری رنگ سے سجا دیا گیا ہے، جس میں وائٹ ہاؤس کے ذخیرے سے نکالی گئی چمکدار سجی سِجائی اشیا بھی شامل ہیں۔ دیواروں کی پلاسٹر کاری ہو یا پردے — ہر جگہ ضرورت سے زیادہ سنہری جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول بھی سونے کی ملمع کاری سے مزین کر دیا گیا ہے۔

تو جہاں اسرائیل کو اپنے امریکی فراہم کردہ ’آئرن ڈوم‘ میزائل دفاعی نظام سے بہت فائدہ ہوا ہے  جو ایرانی حملوں کو مؤثر طریقے سے ناکام بنانے میں کامیاب رہا۔ وہیں امریکہ کے لیے تیار کیا جانے والے نظام کو کسی طور بھی عام دھات سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے استعمال کیے گئے اس نظام کے چمکدار گرافکس کسی اور ’ٹرمپ میم کوائن‘ کے اشتہار جیسے نظر آتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ’گولڈن ڈوم‘ بھی اسی حد سے زیادہ پرجوش سوچ کی پیداوار ہے جو صدر ٹرمپ کے طرزِ حکمرانی کی پہچان بن چکی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اُن کی میکسیکو کی سرحد پر دیوار جو نہ مکمل ہوئی، نہ مؤثر ثابت ہوئی۔

 اس منصوبے کو بھی ’انقلابی‘ قرار دیا جا رہا ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ تکنیکی خامیوں اور بھاری لاگت کا حامل ہے۔

آئرن ڈوم جیسا نسبتاً چھوٹا نظام، جسے مختصر اور درمیانے فاصلے کے میزائل روکنے کے لیے بنایا گیا، اُسے اس پیمانے پر وسعت دینا ممکن نہیں کہ وہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل یا خلا سے داغے گئے راکٹس کے مسلسل حملوں کو روک سکے۔

اگر یہ نظام تیار بھی ہو جائے، تو بھی ضروری نہیں کہ یہ 100 فیصد مؤثر ہو — جیسا کہ اسرائیل کے آئرن ڈوم سسٹم کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ اور کوئی نہیں چاہے گا کہ ایسی صورت حال پیش آئے جہاں آپ کو اس کی صلاحیت کا عملی تجربہ کرنا پڑے۔

اُس وقت تک، آپ ٹرمپ کی خوش فہمی پر مبنی 175 ارب ڈالر کی لاگت سے کہیں زیادہ خرچ کر چکے ہوں گے۔

 شاید ٹرمپ کو اپنے اس وقت خاموش دوست ایلون مسک سے پوچھ لینا چاہیے کہ آیا ’گولڈن ڈوم‘ امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا مؤثر استعمال ہے بھی یا نہیں۔

یہ ہمیں ایک اور مسئلے کی طرف لے جاتا ہے، جو اکثر ٹرمپ کے منصوبوں میں پایا جاتا ہے: یہ منصوبہ مکمل سوچ سمجھ کر تیار نہیں کیا گیا۔

جب صدر ریگن نے 1983 میں اپنے ’سٹریٹیجک ڈیفنس انیشی ایٹو‘ ( ایس ڈی آئی) کا اعلان کیا تھا، تو یہ واضح تھا کہ ان کا ہدف روس تھا۔ لیکن اب ٹرمپ روس سے دوستی اور پوتن کے ساتھ شراکت داری کے خواہاں ہیں — بلکہ ممکن ہے وہ صدر شی، کم جونگ اُن اور دیگر سخت گیر عالمی رہنماؤں کے ساتھ بھی عالمی اتحاد بنانا چاہتے ہوں۔

اگر ’گولڈن ڈوم‘ امریکہ کی حفاظت کرے گا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حفاظت کس سے ہوگی؟ ایک منطقی جواب یہ ہو سکتا ہے کہ کسی غیر متوقع دشمن سے، مگر اگر ٹرمپ ان سب سے دوستی کے خواہاں ہیں تو پھر خطرہ کس سے ہے؟

اگر یہ نظام ناکام بھی ہو جائے تو بھی ’گولڈن ڈوم‘ ایک کارآمد منصوبہ ہو سکتا ہے، لیکن اصولی طور پر کوئی چیز چین کو اس بات سے نہیں روک سکتی کہ وہ اپنا دفاعی نظام تیار کرے۔ ان کے پاس مالی وسائل بھی ہیں اور شاید تکنیکی صلاحیت بھی اور وہ اسے ماسکو، پیونگ یانگ اور دیگر اتحادیوں کو برآمد کر سکتے ہیں۔

 اس صورت میں یہ کہنا مشکل ہے کہ دنیا میں ہتھیاروں کا توازن کس سمت جائے گا۔

جیسا کہ اسرائیلی ’آئرن ڈوم‘ سے بھی واضح ہے، اس نوعیت کی ٹیکنالوجی غیر ارادی نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ چونکہ آئرن ڈوم نے اپنی افادیت ثابت کی ہے، اس نے ایرانی جارحیت اور حوثیوں اور دیگر گروہوں کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے۔ یہ پہلو مثبت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، اسرائیل کو اپنی جنگیں لڑنے میں کسی بھی قسم کی پابندی یا رکاوٹ سے آزاد کر دیا ہے۔

ایران اور اس کے اتحادیوں (جیسا کہ حزب اللہ) کے میزائل ہتھیاروں نے اسرائیلی پالیسی پر جو دباؤ ڈالا ہوا تھا، اسے آئرن ڈوم نے ختم کر دیا ہے، اور اب خطے میں مکمل انتشار اور بدامنی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔

 بظاہر اسرائیل آئرن ڈوم کی بدولت پہلے سے زیادہ محفوظ ہے، لیکن اس سے پیدا ہونے والی عدم استحکام کی کیفیت نے اس کی طویل المدتی سلامتی میں اضافہ نہیں کیا۔

 بلکہ یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ایران اب مزید پختہ عزم کے ساتھ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کرے — اور شاید اپنا دفاعی ’ڈوم‘ بھی تیار کرے۔

جس طرح ریگن کے میزائل دفاعی منصوبے ( ایس ڈی آئی) کے ساتھ ایسے نتائج سامنے آئے تھے جن کا پہلے سے اندازہ نہیں لگایا گیا تھا، اسی طرح گولڈن ڈوم منصوبے کے بھی کچھ ایسے غیر متوقع اور ممکنہ طور پر خوفناک اثرات سامنے آ سکتے ہیں جن کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔

اگر روایتی عسکری توازن، جیسا کہ ’ڈیٹرنس‘ (باز رکھنے کی حکمت عملی) اور ’باہمی یقینی تباہی‘ (mutually assured destruction) جیسے تصورات بے معنی ہو جائیں، تو یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہو جائے گا کہ پھر دنیا کس سمت جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

البتہ ایک بات واضح ہے کہ چین اور روس خاموش نہیں بیٹھیں گے، بلکہ طاقت کے توازن کو بحال کرنے کے لیے اپنے راستے تلاش کریں گے۔

یہ ممکن نہیں کہ یہ منصوبہ عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ جیسا کہ شاید ریگن نے تصور کیا تھا اور اب ٹرمپ بھی امید کر رہے ہوں گے۔

 درحقیقت، 1980 کی دہائی میں روس نے ایس ڈی آئی کو ایک ’اشتعال انگیز اقدام‘ قرار دیا تھا، جس سے سرد جنگ مزید شدت اختیار کر گئی تھی۔

بالآخر کئی سال بعد، ایس ڈی آئی کو حقیقت بنانے میں عملی رکاوٹوں کے باعث، ریگن اور میخائل گورباچوف کے درمیان اسلحہ کی تخفیف کے نئے مذاکرات کا آغاز ہوا، جن کا نتیجہ 1987 کے درمیانے فاصلے کے ایٹمی ہتھیاروں کے معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔

امید افزا انداز میں دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ ٹرمپ کا ’گولڈن ڈوم‘ منصوبہ خوشگوار انجام کو پہنچے۔ اگر امن ہی مقصد ہے تو یہ کوئی کم تر یا قابلِ تنقید خواہش نہیں — بلکہ ایک سنہری مستقبل کی امید ہو سکتی ہے۔

لیکن صدر کی غیر یقینی طبیعت اور اس منصوبے کی بھاری لاگت کو دیکھتے ہوئے یہ بھی بعید نہیں کہ ’گولڈن ڈوم‘ دنیا کو مزید غیر مستحکم اور خطرناک بنا دے۔

یہ سوچ کر اچھا لگتا کہ ہمارے ’مستحکم ذہانت کے حامل‘ صدر نے واقعی یہ سب کچھ اچھی طرح سوچ سمجھ کر کیا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر