بٹ کوائن مائننگ اور مصنوعی ذہانت ڈیٹا سینٹرز کے لیے 2000 میگاواٹ بجلی مختص

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق یہ منصوبہ اضافی توانائی کو جدت، سرمایہ کاری اور غیر ملکی آمدن میں تبدیل کرے گا۔

24 ستمبر 2020 کو لی گئی اس تصویر میں استنبول کے گرینڈ بازار کے قریب، کرپٹو کرنسی ’بِٹ کوائن چینج‘ کی دکان پر بٹ کوائن کی نقالی دکھائی گئی ہے (اوزان کوسے/ اے ایف پی)

پاکستان کو عالمی سطح پر ڈیجیٹل جدت کا مرکز بنانے کے لیے حکومت نے پہلے مرحلے میں بٹ کوائن مائننگ اور مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کو بجلی فراہم کرنے کے لیے 2000 میگاواٹ بجلی مختص کر دی ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے اتوار کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ’یہ تاریخی منصوبہ پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) کی قیادت میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

پی سی سی وزارت خزانہ کے تحت کام کرنے والا ایک سرکاری ادارہ ہے جس کا مقصد اضافی بجلی کو موثر طور پر استعمال میں لا کر اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنا، ہائی ٹیک روزگار پیدا کرنا اور حکومتی آمدن میں اربوں ڈالر کا اضافہ کرنا ہے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس اقدام کو پاکستان کی ڈیجیٹل ترقی کی جانب ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ اضافی توانائی کو جدت، سرمایہ کاری اور بین الاقوامی آمدن میں تبدیل کرے گا۔

بیان کے طابق ’پاکستان جغرافیائی اور معاشی لحاظ سے منفرد پوزیشن رکھتا ہے اور ایشیا، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ڈیجیٹل پل کے طور پر دنیا بھر کے ڈیٹا سینٹرز کے لیے مثالی مقام فراہم کرتا ہے اسی وجہ سے پاکستان کرپٹو کونسل کے قیام کے بعد سے عالمی بٹ کوائن مائنرز اور ڈیٹا انفراسٹرکچر کمپنیوں کی طرف سے بھرپور دلچسپی دیکھنے میں آئی ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ متعدد بین الاقوامی کمپنیاں پہلے ہی پاکستان آ چکی ہیں اور اس اعلان کے بعد مزید عالمی ادارے آئندہ ہفتوں میں یہاں کے دورے کریں گے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سولر توانائی میں غیر معمولی اضافے کے بعد نیشنل گرڈ میں موجود غیر استعمال شدہ بجلی کی پیداوار کو اب ڈیجیٹل اثاثوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور چونکہ اے آئی ڈیٹا سینٹرز اور بٹ کوائن مائننگ آپریشنز کو مسلسل اور بھاری مقدار میں بجلی درکار ہوتی ہے، لہٰذا اضافی توانائی کا استعمال اس شعبے میں سب سے زیادہ فائدہ مند ہے خاص طور پر وہ بجلی گھر جو اپنی پوری استعداد پر کام نہیں کر رہے، اب ایک دیرینہ مالی بوجھ کو پائیدار آمدنی میں بدل سکتے ہیں۔

پاکستان کرپٹو کونسل کے سی ای او بلال بن صاقب نے توانائی کے اس منصوبے کو انقلابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر مناسب ضابطہ کاری، شفافیت اور بین الاقوامی اشتراک کو یقینی بنایا جائے تو پاکستان کرپٹو اور اے آئی کے میدان میں عالمی طاقت بن سکتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ توانائی پر مبنی ڈیجیٹل تبدیلی نہ صرف سرمایہ کاری کے دروازے کھولے گی بلکہ حکومت کو بٹ کوائن مائننگ کے ذریعے براہ راست غیر ملکی زرمبادلہ حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضوابط میں اجازت دی گئی تو پاکستان بٹ کوائن کو قومی خزانے میں براہ راست جمع کر سکے گا  جو ایک بڑی معاشی تبدیلی ہوگی کیونکہ اس سے پاکستانی روپے میں بجلی بیچنے کے بجائے ڈیجیٹل اثاثے جمع کیے جائیں گے۔

سستی اور مستحکم توانائی کی فراہمی کے باعث پاکستان، انڈیا اور سنگاپور جیسے علاقائی حریفوں کے مقابلے میں زیادہ مسابقتی ماحول فراہم کرتا ہے جہاں توانائی مہنگی اور زمین کی کمی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

موجودہ عالمی حالات میں یہ فائدہ اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے جہاں اے آئی ڈیٹا سینٹرز کی مانگ 100 گیگاواٹ سے تجاوز کر چکی ہے وہاں عالمی سطح پر صرف 15 گیگاواٹ کی رسد دستیاب ہے۔ یہ خلیج پاکستان جیسے ممالک کے لیے سنہری موقع ہے جو اس حوالے سے ضوابط، اضافی توانائی اور اضافی زمین رکھتے ہیں۔

پاکستان کی ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی میں بھی بڑی پیش رفت ہوئی ہے کیوں کہ دنیا کی سب سے بڑی سبمرین انٹرنیٹ کیبل اب پاکستان میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ یہ 45,000 کلومیٹر طویل کیبل 33 ممالک کو 46 لینڈنگ سٹیشنز کے ذریعے جوڑتی ہے جس سے پاکستان کی انٹرنیٹ بینڈوڈتھ اور لچک میں اضافہ ہوگا جو اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے تسلسل سے چلنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ 25  کروڑ سے زائد آبادی اور چار کروڑ سے زیادہ کرپٹو صارفین کے ساتھ پاکستان ڈیجیٹل سروسز میں علاقائی قیادت کا بھرپور پوٹینشل رکھتا ہے۔

مقامی اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے قیام سے نہ صرف ڈیٹا کی خودمختاری کے خدشات کم ہوں گے بلکہ سائبر سکیورٹی بہتر ہوگی، ڈیجیٹل سروسز کی فراہمی میں بہتری آئے گی اور قومی سطح پر اے آئی اور کلاؤڈ انفراسٹرکچر کی صلاحیت بڑھے گی جس سے ان مراکز سے ہزاروں براہ راست اور بالواسطہ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے، اور انجینئرنگ، آئی ٹی، اور ڈیٹا سائنسز میں ہنر مند افرادی قوت کی تیاری ممکن ہو گی۔

کرپٹو مائننگ کیا ہے؟

کرپٹو مائننگ جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ کو کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں معلوم ہو۔ کرپٹو کرنسی موجودہ دور میں دنیا بھر میں رائج اور استعمال ہونے والی کرنسی سے مختلف ہے اور جس طرح نام سے ہی واضح ہے کہ یہ ایک آن لائن ڈیجیٹل کرنسی ہے۔

نیشنل سینٹر برائے بیگ ڈیٹا اینڈ کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے سربراہ اور گذشتہ چار سالوں سے کرپٹوکرنسی کی مائننگ کی تکنیک پر کام کرنے والے محسن طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرپٹو مائننگ کا نام گولڈ یعنی سونے کی مائننگ سے نکلا ہے اور جس طرح سونے کو ایک مشکل طریقے سے مختلف آلات استعمال کر کے نکالا جاتا ہے، اسی طرح کرپٹوکرنسی کو بنانے کے لیے کمپیوٹر کے ذریعے کچھ مشکل فارمولے حل کیے جاتے ہیں جن کو حل کرنے پر صارف کو کرنسی ملتی ہے۔

کرپٹوکرنسی بنانے کے پورے عمل کو کرپٹو مائننگ کہا جاتا ہے اور کرپٹو مائننگ کرنے والوں کو ’مائنر۔‘

کمپیوٹر پر مشکل فارمولے حل کرنے پر ایک خاص تعداد میں ڈیجیٹل کرنسی مل جاتی ہے جس سے صارف پھر خریداری کر سکتا ہے۔

کرپٹوکرنسی کو 2009 میں ساتوشو ناکوموٹو نامی ایک شخص نے ایجاد کیا تھا، جو پیشے کے لحاظ سے سافٹ ویئر انجینیئر ہیں اور اپنا اصلی نام خفیہ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔

شروع میں اس کرنسی کو اتنی توجہ نہیں مل سکی لیکن پھر یہ ڈارک ویب پر موجود ایک ویب سائٹ ڈیجیٹل کرنسی کے لیے پہلی آن لائن مارکیٹ بنی جس پر لوگ ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے خریداری کرتے تھے۔

کرپٹو کرنسی اور دنیا میں رائج موجود کرنسیوں میں فرق یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی میں درمیان کا کوئی بندہ نہیں ہوتا جو ٹرانزیکشن کا ٹریک ریکارڈ کر سکے۔ مثلاً بینک سے پیسے لیتے یا جمع کرواتے ہوئے بینک کے پاس ان پیسوں کا ریکارڈ ہوتا ہے، تاہم کرپٹو کرنسی میں ایسا نہیں ہوتا۔

ساتوشو ناکوموٹو جب 2009 میں پہلی بار کرپٹو کرنسی مارکیٹ میں لائے تو انہوں نے 50 بٹ کوائن مائن کیے اور اسی طرح ہر دس منٹ بعد کمپیوٹر پر فارمولے حل کرکے مزید 50 بٹ کوائن مائن کرتے رہے۔ وہ مائنگ کرکے مختلف لوگوں کو بھیجتے رہے تاہم ان بٹ کوائن کی کوئی قدر نہیں تھی۔

حکومتی کرپٹو مائننگ فارمز کیسے ہوں گے؟

حکومتی سرپرستی میں کرپٹو مائننگ فارمز لگانے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر کرپٹو مائننگ فارمز لگائے جائیں گے اور وہ ڈیجیٹل کرنسی مائن کرنا شروع کریں گے۔ کرپٹو مائننگ فارمز کے لیے بلا تعطل بجلی اور انٹرنیٹ کی سپلائی ضروری ہوتی ہے اور حکومت نجی پارٹنر کے ساتھ معاہدہ کرکے مائننگ کرسکتی ہے۔

حالیہ دنوں میں مشہور کمپنی پے پال نے کرپٹو کرنسی میں خریدو فروخت کی اجازت دے دی ہے جس کی وجہ سے کرپٹو کرنسی کی قدر دنیا بھر میں بڑھ گئی ہے۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ دنیا میں اب صرف بٹ کوائن نہیں بلکہ ہزاروں میں کرپٹو کرنسی موجود ہیں، تاہم بٹ کوائن کو مائن کرنا اب بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اس کو مائن کرنے کے فامولے مشکل ہوگئے ہیں۔

کرپٹو مائننگ فارمز لگانے پر کتنا خرچہ آتا ہے؟

کرپٹو مائننگ کے طریقہ کار کے بارے میں تو ہم نے جان لیا، تاہم اب جانتے ہیں کہ کرپٹو مائننگ لگانے پر خرچہ کتنا آتا ہے۔

کرپٹو مائننگ کوئی بھی بندہ اپنے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر کر سکتا ہے جس میں آپ کو ایک سافٹ ویئر انسٹال کرنا پڑے گا جو مفت میں ملتا ہے۔

کمپیوٹر کے ساتھ آپ کو ایک گرافکس کارڈ (جو ویڈیو ایڈیٹنگ یا گیمز کھیلنے جیسے کاموں کے لیے ضروری ہوتا ہے) لگانا پڑے گا۔

یہ گرافکس  کارڈ عام گیم میں استعمال ہونے والے گرافکس کارڈ سے مہنگا ہوتا ہے اور پاکستان میں با آسانی مل سکتا ہے۔

کرپٹو مائننگ کے ماہر کا کہنا ہے کہ گرافکس کارڈ اور پورا سسٹم لگانے  پر 20 لاکھ سے 30 لاکھ تک کا خرچہ آتا ہے اور اس میں سب سے زیادہ خرچہ گرافکس کارڈ خریدنے کا ہوتا ہے۔

یہ سسٹم کہاں پر لگایا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ مائننگ سسٹم چلتا ہے تو بہت زیادہ  گرمی پیدا کرتا ہے، اسی وجہ سے مائننگ لگانے کے لیے سرد علاقوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جس طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات تاکہ وہاں پر سسٹم کو نارمل درجہ حرارت پر رکھنے کے لیے مزید خرچہ نہ کرنا  پڑے۔

گرم اور مرطوب علاقوں میں اس کو لگایا جائے تو اس کمپیوٹر کا درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے ایئر کنڈیشنر یا کوئی اور کولنگ سسٹم لگانا پڑتا ہے۔

کیا کوئی کرپٹو مائئنگ فرم کے بغیر اس کاروبار میں جا سکتا ہے؟

ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار میں صنعت کاری کرنے کے لیے مائننگ فارمز لگانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آن لائن ڈیجیٹل کرنسیز ایکسچینج ہوتی ہیں اور کوئی بھی اس آن لائن ایپ کے ذریعے ان کو بینک کے ذریعے پیسے بھیج کر ڈیجیٹل کر نسی لے سکتا ہے۔

اس کی عام مثال ایسی  ہے جس طرح آپ کسی منی ایکسچینجر کے پاس جا کر ان کو پاکستانی روپے دے کر ان سے کوئی اور کرنسی جیسے کہ ڈالر یا سعودی ریال خریدتے ہیں۔

اس سارے سسٹم میں فراڈ اور جعل سازی کا عنصر ضرور موجود ہے اور ماضی میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ ایک شخص نے پیسے بھیج دیے لیکن ان کو ڈیجیٹل کرنسی نہیں ملی اور ان کے ساتھ فراڈ ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان