اس ملک کا نام اریٹیریا تھا۔ وہاں قبر روٹی سے زیادہ قریب تھی۔ موت امداد سے زیادہ تیز تھی۔ قبر وطن سے زیادہ نزدیک تھی۔ آسمان بھی خالی، زمین بھی سنگ دل۔ جنگیں ہی جنگیں۔ قحط نے دریاؤں کو ایسا خشک کیا کہ وہ مردہ جسموں جیسے لگنے لگے۔ درخت مر گئے، پرندے ہجرت کر گئے۔ اور اریٹیریا کے لوگوں کے پاس ایک ہی انتخاب تھا یعنی اپنی زمین کے اندر مرنا، باہر مرنا یا اس کے کناروں پر مرنا۔ یوں وہ بکھر گئے ایسے انتخاب میں انجام ایک ہی تھا۔
یہ سوڈان اور اریٹیریا سرحد پر قسّالا کے قریب واد شریف کیمپ تھا جہاں وقت بتانے کی ضرورت نہیں، یہاں کے دن ریت کے ذروں کی طرح گزر جاتے ہیں اور خلاصہ یہ کہ یہاں ہر دن بچوں کی تعداد کم اور قبریں بڑھتی جاتی ہیں۔
اس کے لیے کوئی طویل تعارف نہیں چاہیے۔ یہاں جو ہوا وہ یہ ہے کہ ایک خیمے سے 50 سالہ شخص نکلا۔ اس کی ہتھیلیوں میں سفید کپڑے میں لپٹی کوئی چیز تھی۔ اس کے قدم ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، جہاں ایک عورت جھکی ہوئی تھی، جیسے آنے والے لمحے کو روکنے کی دعا کر رہی ہو۔ نہ کوئی چیخ، نہ کوئی پکار۔ موت کی ہیبت ٹوٹ چکی تھی، جیسے یہ کوئی روز کا معمول ہو جیسے کھانے کی کمی کی صورت میں موت بھی روزانہ کی ’خوراک‘ بن گئی ہو۔
وہ شخص آگے بڑھا۔ پیچھے دو آدمی اور تھے، ایک کے ہاتھ میں بیلچہ، دوسرے کے ہاتھ میں کدال۔
ہم نے اسے روکا اور بچے کی عمر پوچھی۔ ’چار سال‘ اس نے سرد لہجے میں جواب دیا۔
ہم نے ہمت کر کے پوچھا: ’کیسے مرا؟‘ وہ چونک کر بولا: ’بھوک سے۔‘ پھر وہ چلتا رہا اور ہم پیچھے ہو لیے۔
کیمپ کے جنوبی کنارے پر ایک میدان تھا، ساتھ ساتھ چھوٹے مٹی کے ڈھیر، جیسے زمین پر چھوٹے چھوٹے زخم ابھر رہے ہوں۔ اس نے بیٹے کی لاش ریت پر رکھی۔ ساتھی گڑھا کھودنے لگے۔ ذرا فاصلے پر ایک اور چھوٹی میت پڑی تھی، اپنی باری کا منتظر، قبر اور دعا دونوں کے لیے۔
تم سوچتے ہو قبروں کو گن لو، مگر ایک مقامی شخص تمہارا ہاتھ یہ کہتے ہوئے پکڑ لیتا ہے کہ یہاں گنتی بدلتی رہتی ہے۔ روز 20 سے 40 نئی قبریں جن میں 80 فیصد بچوں کی ہوتی ہیں۔
تم اس غمگین باپ سے کہتے ہو سفید کفن ہٹا دو تصویر کے لیے تاکہ دنیا کے ضمیر پر لرزہ طاری ہو۔ وہ بس اتنا کہتا ہے کہ ’ایسا کرنا منع ہے۔‘
اس کے لہجے میں ایک تلخ مسکراہٹ، جیسے کہہ رہا ہو میں نے انتظار پر داؤ لگایا تھا اور اب قبر کے کنارے بیٹھا ہوں۔
رپورٹ بناتے ہوئے تمہارے ہاتھ قلم اور کاغذ سے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ تم ایک گھنٹے تک دو لاشوں کے درمیان کھڑے رہتے ہو۔ دل چاہتا ہے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر دنیا کی طرف سے معافی مانگو۔ ایک ایسی دنیا کی طرف سے جو ہتھیاروں کو اپ گریڈ کرنے اور خلائی جنگوں میں مصروف ہے۔
تم کیمپ کے حالات کے بارے میں سوال پوچھنے آئے تھے۔ جواب دو نئی قبروں میں ملا۔ المیے کی شدت یا امداد کی مقدار کے بارے میں پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ الفاظ کی تسلی بیکار لگتی ہے، صرف الفاظ یا سہارا دینے والی باتیں کرنے سے اصل درد یا مصیبت کم نہیں ہوتی۔
تم مٹی کے ڈھیروں کو گھورتے ہو جہاں کوئی حرکت نہیں۔ موت کی بُو آنکھوں، چہروں اور ہاتھوں کو گھیر لیتی ہے۔ ظالم سورج اس ریت کو جھلسا رہا ہے جو کبھی نہیں بھرتی۔ یہاں چہرے امید اور انتظار دونوں سے عاری ہیں۔ ہر چیز کو انجام کا خطرہ ہے۔ لاغر، ننگے پاؤں اور لاشوں سی لگتی مخلوق ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح بکھرنے کو تیار، اِدھر اُدھر بھٹک رہی ہے۔ قبروں کے بیچ ایک بوڑھا آدمی تمہارے قریب آتا ہے، تکلیف سے پوچھتا ہے کہ کیا تمہارے پاس بسکٹ یا چاکلیٹ ہے؟
ایریٹریا کا ایک ڈاکٹر اسے سمجھاتا ہے کہ تم صحافی ہو، امدادی کارکن نہیں۔ مگر وہ پھر بھی اپنی بات دہراتا ہے۔ اور وہ درست ہے۔ ایک روٹی کا ٹکڑا یا چاکلیٹ اس کے لیے اس آرٹیکل سے کہیں زیادہ اہم ہے جو لوگوں کو لمحے بھر کے لیے اداس کر کے بھلا دیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیلچہ، کدال، انتظار کرتی لاش، تم دوبارہ دیکھتے ہو۔ تھوڑی دیر میں وہ گڑھے میں اترے گی۔ صحرا اسے نگل جائے گا۔ تم تیزی سے رخصت ہوتے ہو، ڈرتے ہو کہ تیسری لاش نہ دیکھ لو۔ کیمپ والے کہتے ہیں اس میں دیر نہیں لگے گی۔
وہ باپ، شکستہ آنکھوں والا، بس یہ کہتا ہے کہ دنیا سے ہماری بس ایک درخواست ہے کہ ہمیں کچھ بیلچے اور کدال دے دو تاکہ اپنے مرنے والوں کو دفنا سکیں۔
یہ برسوں پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت اخبار ’النهار‘ کا نمائندہ تھا۔ اس باپ کا منظر دل میں گہرا زخم بن گیا۔ لگا کہ اب ایسی سفاکی دوبارہ نہیں دیکھوں گا۔
مگر سال گزر گئے۔ ہم مشرق وسطیٰ کے خون آشام مناظر میں پھرتے رہے جہاں خانہ جنگیاں، خودکش دھماکے، دریاؤں میں بہتا خون، حملے، انقلاب، گری ہوئی مورتیاں، ٹوٹی ہوئی سرحدیں، انتہا پسند، قیدیوں کے عقوبت خانے، اجتماعی قبریں۔ مگر وہ باپ اور اس کا بیٹا ہمیشہ سب سے ظالم منظر رہا۔
ہم نے سوچا تھا نیا صدی میں ایسا نہیں ہو سکے گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کم از کم قحط تو روک لیں گی، چاہے بندوقیں خاموش نہ کر سکیں لیکن کتنی ہولناک خوش فہمی تھی۔
میں پرانی تحریروں میں کھویا ہوا تھا جب وہ رپورٹ ملی جو اریٹیریا کے قحط زدہ کیمپ پر لکھی تھی۔ اچانک لگا صحافی بھی کتنا سادہ لوح ہے، سمجھتا ہے دنیا لاشوں کے انبار سے کچھ سیکھتی ہے، کتنی ہولناک خوش فہمی۔
مہنیوں سے جب بھی ہم صفحہ اول کے لیے تصویر چنتے ہیں یا ویب سائٹ کی سرخی، دل پر بوجھ سا اتر آتا ہے۔ غزہ کے مناظر اس باپ اور اس کی لاش سے بھی زیادہ دل چیر دینے والے ہیں۔ بھوک سے کپکپاتے ہاتھ، برتن آگے بڑھاتے بچے، بمباری اور قحط کا مشترکہ عذاب۔
نتن یاہو کی درندگی نے صحراؤں کے قحط اور روٹی کی کمی کو بھی شرما دیا۔ اس نے غزہ کو دو قاتلوں کے حوالے کر دیا ہے یعنی بم اور بھوک۔ دنیا کا ضمیر شرم میں ڈوبا ہے، مگر چھوٹی چھوٹی قبروں کو بس تکتا رہتا ہے۔
کیسے ممکن ہے کہ مصنوعی ذہانت اور حیران کن ترقی کی یہ دنیا اتنے بڑے قتلِ عام کو برداشت کر رہی ہے؟
غزہ میں، قبر روٹی سے زیادہ قریب ہے۔
غزہ میں، قبر وطن سے زیادہ نزدیک ہے۔