رہا ہونے والے قیدیوں کو داعش نشانہ بنا سکتی ہے: افغان طالبان

لویا جرگہ سے منظوری کے بعد افغان حکام نے 400 سخت گیر طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کردیا ہے، ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ وہ امن کے خواہش مند ہیں، تاہم طالبان نے اپنے کارکنوں پر حملوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

افغان حکام نے 400 'سخت گیر' طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کردیا ہے۔ یہ معاملہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات میں حتمی رکاوٹ کا باعث تھا اور جس کے حوالے سے صدر اشرف غنی نے متنبہ کیا تھا کہ 'یہ دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔'

دوسری جانب طالبان نے انتباہ دیا ہے کہ ان رہا کیے گئے طالبان قیدیوں پر شدت پسند تنظیم داعش، افغانستان کی جاسوس ایجنسی کے ساتھ مل کر حملے کرسکتی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان حکومت اور طالبان، قیدیوں کی رہائی کی تکمیل کے کچھ ہی دنوں میں ملاقات کریں گے۔ قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر مختلف حلقوں کی جانب سے کافی تنقید بھی سامنے آئی، کیونکہ ان میں سے بہت سارے قیدی ایسے حملوں میں ملوث تھے جن میں متعدد افغان اور غیر ملکی شہری ہلاک ہوئے تھے۔

جمعرات کو 80 قیدیوں کے ایک گروپ کو رہا کیا گیا تھا اور افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں اس حوالے سے بتایا تھا کہ ' اس سے براہ راست مذاکرات اور ملک گیر جنگ بندی کے لیے کوششوں میں تیزی آئے گی۔'

رہا کیے گئے ایک طالبان قیدی باز محمد نے اے ایف پی کو بتایا: 'مجھے اغوا کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا ، میں نے تقریباً آٹھ سال قید کاٹی ہے۔ میں اپنے رہنماؤں اور صدر سے مطالبہ کرتا ہوں جنہوں نے ہماری رہائی کا حکم دیا کہ وہ مستقل جنگ بندی کریں اور خونریزی بند کریں تاکہ ہم سب پر امن زندگی گزار سکیں۔ ہمارے نوجوان جنگ کی وجہ سے دکھی ہیں اور ان کا مستقبل بھی تاریک لگتا ہے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے اور اچھی زندگی گزارنے دیں۔'

ایک اور طالبان قیدی محمد شریف نے اے ایف پی کو بتایا: 'مجھے یہاں طالبان کا رکن ہونے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ میرا جرم قتل ہے۔ میں مستقل جنگ بندی اور امن چاہتا ہوں۔ آج صدر کے حکم سے مجھے رہا کیا گیا ہے۔'

دوسری جانب رہا کیے گئے محمد انور کہتے ہیں: 'میں طالبان کا رکن ہوں جسے قتل اور اغوا کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ میں امن کے حوالے سے مطمئن ہوں اور خدا کی رضا سے افغانستان میں امن آئے گا اور تمام مسلمان پر امن زندگی گزاریں گے۔'

طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہوں گے۔

افغان حکام نے ابتدائی طور پر طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کردیا تھا، تاہم بعد میں صدر اشرف غنی کی جانب سے بلائے گئے لویا جرگے میں 400 عسکریت پسندوں کی رہائی کی منظوری دی گئی تھی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دستیاب ایک سرکاری فہرست کے مطابق قیدیوں میں  44 ایسے بھی ہیں، جو ہائی پروفائل حملوں میں ملوث ہونے کے باعث امریکہ اور دیگر ممالک کے لیے خاص طور پر تشویش کا باعث ہیں۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے رواں ہفتے کے آغاز میں کہا تھا کہ انہوں نے ایک سابق افغان فوجی اہلکار کو جیل میں رکھنے کے حوالے سے لابنگ کی، جس نے آسٹریلیا کے تین شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔

افغان صدر اشرف غنی نے جمعرات کو متنبہ کیا کہ سخت گیر عسکریت پسند 'ہمارے، امریکہ اور دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔'

اشرف غنی نے امریکی تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ایک ویڈیو کانفرنس میں کہا: 'یہ اتفاق رائے صرف امن کی خواہش پر ہوا لیکن اس کی قیمت پر نہیں۔'

انہوں نے مزید کہا: 'اب ہم نے بڑی قسط ادا کر دی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امن کے نتائج برآمد ہوں گے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں برس 29 فروری کو امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے میں قیدیوں کی رہائی کا معاملہ طے پایا تھا جبکہ امریکہ نے اس شرط پر اپنی افواج کے انخلا کا وعدہ کیا تھا کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔

فروری کے معاہدے میں یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ کابل طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرے گا جبکہ عسکریت پسند اپنی قید میں موجود ایک ہزار افراد کو رہا کریں گے۔

کابل نے معاہدے کے مطابق بہت سارے طالبان قیدیوں کو رہا کیا، لیکن اس نے 400 سخت گیر قیدیوں کو رہا کرنے میں پس و پیش سے کام لیا۔

تاہم قبائلی عمائدین اور دیگر ممتاز شہریوں کے روایتی اجتماع 'لویا جرگہ' نے مذاکرات اور ممکنہ جنگ بندی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دی۔

انہوں نے حکام سے آزاد کیے گئے قیدیوں کی نگرانی کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اس بات کا یقین کر لیں کہ وہ میدان جنگ میں واپس نہ جائیں۔

جرگے سے پہلے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے قیدیوں کو رہا کرنے کی اپیل کی تھی، تاہم ساتھ ہی انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ یہ اقدام 'غیر مقبول' ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا