ریپ کلچر: بھارت اور پاکستان کا ایک موازنہ

پاکستان اور بھارت دوسرے معاملات میں کتنے مختلف کیوں نہ ہوں، ایک معاملے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

بھارتی ریاست اترپردیش میں ایک خاتون  ریپ کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

’مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کرنا چاہیے۔‘ جی ہاں یہ فتویٰ کسی عام شخص کا نہیں بلکہ 2007 میں یوپی میں سدھارتھ نگر کے مقام پر ویرات ہندوستان نامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما نے دیا تھا۔

اس ریلی کی صدارت یوگی ادیتیہ ناتھ کر رہے تھے جو اب بھارت کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس پر سخت تنقید کے بعد بھی یوگی نے کبھی اس بیان کی مذمت نہیں کی۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں کل 33,356 ریپ کے کیسز رپورٹ کیے گئے۔ ہندوستانی معاشرہ ہوس کا کتنا پجاری اس کے لیے آپ کے سامنے صرف ایک مثال رکھتا ہوں۔

جموں و کشمیر کو آئین ہند میں حاصل خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر بھارت کی مختلف ریاستوں میں جموں و کشمیر کے حوالے سے انٹرنیٹ پر دو فقرے یعنی ’کشمیری لڑکیوں سے شادی‘ اور ‘کشمیری لڑکیاں‘ سرچ کیے جانے والے ٹاپ سرچز تھے۔ سوشل میڈیا تو خیر اس طرح کے ہیش ٹیگس سے بھرا پڑا تھا۔

انڈیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق گوگل پر’کشمیری لڑکیاں‘ سرچ کرنے میں کیرالہ پہلے نمبر پر، جھار کھنڈ دوسرے اور ہماچل پر دیش تیسرے نمبر پر تھا۔ یہاں یہ واضح کرنا لازمی ہے ریاست کیرالہ 96.2 فی صد شرح خواندگی کے ساتھ بھارت میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جنسی ہوس کا تعلق تعلیم یا جاہلیت سے نہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں رس بس چکی ہے۔

اسی طرح ’کشمیری لڑکیوں سے شادی‘ کو گوگل سرچ کرنے میں بھارت کی راجدھانی دہلی پہلے نمبر پر جبکہ مہاراشٹر اور کرناٹک کا بالترتيب دوسرا اور تیسرا نمبر تھا۔آئین کی شق 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد بھارت میں حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے بہت سے رہنماؤں نے، جن میں ایم ایل ایز و ایم پیز بھی شامل ہیں، یہ تک کہہ دیا تھا کہ اب ہماری موج ہو گی، کشمیر کی گوری لڑکیوں سے شادی کریں گے۔

ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر کا بیان ’جموں و کشمیر کی لڑکیوں کو اب بہو بنائیں گے‘ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے سروے برائے سال 2018 کے مطابق بھارت حقوق نسواں میں پسماندگی کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے جبکہ اس معاملے میں جنگ زدہ افغانستان اور شام بھی انڈیا سے بہتر حالت میں ہیں۔ 

اس ایشو کو لے کر پاکستان بھی اپنے پڑوسی سے کچھ کم نہیں۔ دن دیہاڑے شاہراہوں پر عورتوں پر جنسی حملے دونوں ممالک میں معمول کی بات بن گئی ہے۔ دو سال پہلے عظیم صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کے شہر قصور میں معصوم زینب انصاری کا واقعہ پیش آیا۔ قصور کے کچھ ہی دن بعد بھارتی زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں آصفہ نامی سات سالہ بچی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد اسے مار دیا گیا۔

یہ کام ایک سازش کے تحت کروایا گیا تھا تاکہ جموں و کشمیر کے اندر مذہبی ہم آہنگی کو توڑ کر مذموم سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ ان دو واقعات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

حال ہی میں پاکستان کی لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر ایک عورت کو اس کے معصوم بچوں کے سامنے ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ جتنا یہ واقعہ دلخراش ہے اتنا ہی ڈراؤنا سی سی پی او لاہور کا بیان ہے جس نے سارا ملبہ متاثرہ خاتون پر ڈال دیا۔ اپنے ملک کو عورتوں کے لیے فرانس کی طرح محفوظ بنانے کے بجائے ’یہ فرانس نہیں، یہاں کھلے عام نہیں گھومنا‘ جیسی تنبیہ دینا دراصل ریاست کا ہوس کے پجاری غنڈوں کے سامنے بے بسی کا اظہار ہے۔

یہی عورت جب اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہے تو اس کو فحش گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے لیے عالمی اداروں کے اعداد و شمار بھی تشویش ناک ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس برائے 2020 میں کل 153 ممالک میں بھارت کا مقام 112 جبکہ پاکستان بد ترین 151ویں نمبر پر ہے۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ دونوں ممالک کی آدھی آبادی یوں ہی یرغمال بنی رہے اور ریاستیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ ریپسٹس کو کھلے عام حمایت کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عورتوں کے لیے محفوظ معاشرہ بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی اداروں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ عورت بھی انسان ہے وہ کوئی الگ مخلوق نہیں، اس کو گھر سے کب نکلنا ہے، کس لباس میں نکلنا ہے اور کس کے ساتھ نکلنا ہے، یہ بحث ریاست کا کام نہیں۔ ریاست کا کام اپنے تمام شہریوں کو بلا تخصیص تحفظ فراہم کرنا ہے-


کالم نگار کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے اور آپ جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ