جلسوں پر پابندی: کرونا یا اپوزیشن پاور شو روکنے کی کوشش

جلسہ ہر صورت میں ہوگا۔ اگر ہمیں روکا گیا تو کارکنان اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ جہاں تک کورونا سے بچاؤ کی بات ہے تو جلسہ گاہ کے تمام داخلی راستوں پر سینٹائزر فراہم کیا جائے گا۔ اور سب کو ماسک پہننے کی ترغیب دی جائے گی: اپوزیشن

(اے ایف پی)

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے منگل کے روز تمام جلسے جلوسوں کو منسوخ کرانے کے اعلان کے بعدسیاسی اور غیر سیاسی فورمز پر  یہ بحث شروع ہوئی کہ آیا کے پی حکومت کورونا وبا کے پیش نظر پی ڈی ایم سمیت تمام عوام الناس کی فلاح کی خاطر ایسا کر رہی ہے یا دراصل  اپوزیشن کو پاور شو سے روکنے کے لیے بروقت زمین ہموار کی جارہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعلی محمود خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ کورونا وبا کے خطرے کے سبب حکومت نے نہ صرف 21 نومبر کو رشکئی کے مقام پر ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ منسوخ کر دیا ہے بلکہ صوبے میں آنے والے دنوں میں حکومت کے زیر انتظام تمام  دیگر اجتماعات کو بھی منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اس اعلان کے بعد حکومت کے خلاف متحد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل اپوزیشن جماعتوں نے گزشتہ روز جلسوں پر پابندی عائد کرنے کو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ایک سیاسی حربہ قرار دیا اور یہ کہا کہ حکومت کو گلگت بلتستان کے انتخابات کے فوراً بعد کورونا وائرس سے بچاؤ کا خیال کیسے آیا۔ساتھ ہی پی ڈی ایم نے حکومتی پابندی مسترد کرتے ہوئے  پہلے سے طے شدہ تاریخ اور جگہ پر جلسہ کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔

دوسری جانب ، خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے بیان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پارلیمانی اپوزیشن رہنماؤں کو آج بدھ کے روزخیبر پختونخوا اسمبلی کے جرگہ ہال میں مذاکرات کی دعوت دی، تاکہ 22 نومبر کا جلسہ منسوخ کرنے کے لیے اپوزیشن کو قائل کیا جا سکے۔

 اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے وزیر اعلی محمود خان نے تیمور جھگڑا، کامران بنگش، اکبر ایوب اور شوکت یوسفزئی کو یہ ذمہ داری سونپ دی۔

وزیر اعلی کے مشیر کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو مذاکرات سے متعلق گفتگو میں بتایا کہ جس طرح بعض سیاستدان موجودہ کورونا کی وبا سے بچاؤ کی خاطر اپنی ذاتی  غمی وخوشی کے مواقع پر اقدامات اٹھا رہے ہیں اس طرح قوم کو بھی اپنا سمجھ کر سیاسی اجتماعات سے گریز کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ  صوبے میں صرف تین دن کے اندر کورونا سے متاثرہ افراد کی شرح چھ سے نو فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

‘دوسری لہر بہت خطرناک ہے۔ اس جلسے سے حکومت تو نہیں جانے والی البتہ اپوزیشن خود سمیت عوام کو مصیبت میں ڈال دے گی۔  آج  پی ڈی ایم کو مذاکرات  کے لیے مدعو کرنے کا مقصد  کورونا کی صورتحال سے آگاہ کرنا ہے۔ ‘

تاہم مذکرات میں اپوزیشن کی غیر موجودگی کے بعد حکومت نے ایک نیوز بریفنگ دی اور میڈیا کو اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے اراکین صوبائی کابینہ نے بتایا اپوزیشن پارلیمانی رہنماؤں نے شرکت کی یقین دہانی کے باوجود بھی ان مذاکرات میں حصہ نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت اپوزیشن کو جلسہ کرنے سے نہیں روکے گی لیکن کورونا کیسز میں اضافے کی صورت میں ذمہ داری بھی اپوزیشن پر ہوگی۔

 وزیر صحت تیمور جھگڑانے بتایاکہ جلسوں اور ریلیز کے باعث کورونا کیسز میں اضافہ ہوا ہے ، لہذا ایسی صورت میں اپوزیشن کا جلسہ کرنا عوام کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہوگا۔

اپوزیشن کے بیانات

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے جلسہ منسوخ کرنے کی اپیل اور مذاکرات میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی ثمر بلور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت پی ڈی ایم کو کورونا کے حوالے سے بہت پہلے اگاہ کر چکی ہے لہذا اپوزیشن دوبارہ سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ان کے مسائل نظر انداز کرتی جارہی ہے اور پھر یہ توقع بھی کرتی ہے کہ اپوزیشن جلسے جلوس بھی نہ کرے۔

’جلسہ ہر صورت میں ہوگا۔ اگر ہمیں روکا گیا تو کارکنان اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ جہاں تک کورونا سے بچاؤ کی بات ہے تو جلسہ گاہ کے تمام داخلی راستوں پر سینٹائزر فراہم کیا جائے گا۔ اور سب کو ماسک پہننے کی ترغیب دی جائے گی۔‘

جمعیت العلمائے اسلام کے ترجمان مولانا عبدالجلیل نے کہا کہ انہیں خبر تھی کہ کورونا وائرس کی آڑ میں حکومت انہیں جلسہ نہ کرنے کے لیے قائل کرے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کل اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی سربراہی اجلاس میں یہ بات حتمی طور پر طے پا چکی ہے کہ جلسہ ہر حال میں ہوگا اور حکومت کی جانب سے رکھی گئی میٹنگ میں کوئی شرکت نہیں کرے گا۔‘

سیاسی تجزیہ نگار اور بین الااقوامی امور کے ماہر پروفیسر اعجاز خٹک کے مطابق پاکستان کی موجودہ سیاسی بحران کی وجہ ناقص سیاسی نظام اور جمہوری اقدار میں پختگی کی عدم موجودگی ہے۔

پروفیسر اعجاز خٹک کے مطابق، پاکستانی اپوزیشن اپنا لوہا منوانے کے چکر میں ہے جب کہ حکومت روایتی سیاسی انداز میں اپوزیشن کا راستہ روکنے کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے کو تیار ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ کے پروفیسر اعجاز خٹک نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں پختگی  لانے کے لیے ہر فورم پربحث مباحثے ہونے چاہیئں۔ انہوں نے موجودہ حالات کی ذمہ داری پاکستانی سیاسی لیڈران پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے دور میں جمہوریت کے استحکام اور جمہوری فضا کو تقویت دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہوتےتو آج صورتحال آئیڈیل نہیں تو بہتر ضرور ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ وبا سے لاحق خطرات اپنی جگہ لیکن موجودہ سیاسی بحران کی اصل وجہ روایتی سیاست ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان