امریکہ: گوانتانامو بے کے قیدیوں کو کرونا ویکسین لگانے کا منصوبہ معطل

ری پبلکن رہنماؤں اور نیو یارک کے شہریوں کی مخالفت کے بعد پینٹاگون نے گوانتانامو بے کے قیدیوں کو کرونا وائرس کی ویکسین لگانے کا منصوبہ روک دیا ہے۔

28 اکتوبر 2009 کی اس تصویر میں گوانتانامو بے میں قیدی نماز کے لیے جمع ہو رہے ہیں (اے ایف پی)

اہم ری پبلکن رہنماؤں اور نائن الیون کے حملوں میں متاثر ہونے والے نیو یارک کے شہریوں کی مخالفت کے بعد امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ وہ گوانتانامو بے کے حراستی مرکز کے قیدیوں کو کووڈ۔19 کی ویکسین لگانے کی پیش کش پر عمل درآمد کو روک رہا ہے۔

گونتانامو قیدیوں کے گروپ میں خالد عمر شیخ بھی شامل ہیں جن پر نائن الیون کے حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔

عوامی معاملات کے لیے اسسٹنٹ سیکرٹری دفاع جان کربی نے ہفتے کو اپنی ٹویٹ میں کہا: ’فورس پروٹیکشن کے پروٹوکول پر نظر ثانی کرتے ہوئے ہم منصوبے کو آگے بڑھانے کا عمل روک رہے ہیں۔ ہم اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے عزم پر کاربند ہیں۔‘

امریکی اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ اور ’نیو یارک ٹائمز‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ فوج نے 27 جنوری کو ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت گوانتانامو بے میں باقی رہ جانے والے 40 قیدیوں کو رضاکارانہ طور پر ویکسین لگائی جانی تھی۔ ویکسین لگانے کے پیچھے ایک وجہ یہ تھی کہ ویکسین نہ لگے ہونے کی وجہ سے زیرحراست افراد کے مقدمات کی فوجی عدالتوں میں سماعت پہلے ہی سست روی کا شکار تھی۔

 

اس خبر، کہ وہ افراد جن پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام ہے انہیں بہت سے امریکیوں سے پہلے ویکسین دی جار ہی ہے، پر ایوان میں اقلیتی رہنما کیون میکارتھی جیسے ممتاز ری پبلکن رہنماؤں نے غصے کا اظہار کیا۔

کیون میکارتھی نے ہفتے کو ٹوئٹر پر لکھا: ’صدر بائیڈن نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کے پاس وائرس کو شکست دینے کے لیے پہلے ہی دن منصوبہ ہوگا۔ انہوں نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ یہ منصوبہ زیادہ تر امریکیوں سے پہلے دہشت گردوں کو ویکسین دینے کا ہو گا۔‘

گوانتانامو بے کے قیدیوں کو پہلے ویکسین دینے کے منصوبے پر بعض ایسے افراد نے بھی برہمی کا اظہار کیا جو 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز پر حملے کے دن نیو یارک میں زمین پر موجود تھے۔

نائن الیون پر نیو یارک کے فائر کمشنر ٹوم ون ایسن نے اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ کو بتایا: ’جو ہمیں اپنی حکومت کی جانب سے مل رہا ہے وہ مضحکہ خیز ہے۔ امریکہ کے ہر شہری کو ویکسین دی جانے سے پہلے گوانتانامو بے میں کم تر افراد کو دی جائے گی، یہ نامعقول بات ہے۔‘

امریکی فوج  نے اس ماہ کے شروع میں گوانتانامو بے بیس پر مقیم چھ ہزار افراد کو ویکسین لگانے کا کام شروع کیا تھا۔ ان لوگوں میں 15 سو امریکی فوجی بھی شامل تھے جو حراستی مرکز میں تعینات کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مارچ  میں پینٹاگون نے سلامتی کے حوالے سے تشویش کی بنیاد پر فوجی کمانڈروں کو کرونا (کورونا) وائرس کے نئے کیسوں کو عام کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد یہ معلوم نہیں ہے کہ گوانتانامو میں قیدی یا دوسرے لوگوں میں سے کتنے لوگ کووڈ کا شکار ہوئے ہیں۔

اس سے پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے اس پر تبصرے سے انکار کر دیا تھا کہ آیا قیدیوں کو کرونا (کورونا) وائرس کی ویکسین دی جا رہی یا نہیں۔

ویکسینیشن نہ ہونا حال ہی میں ایک مسئلہ بھی بنا۔ 22 فروری کو ان تین قیدیوں کو خود پر عائد الزامات سنانے کے لیے کورٹ لے جانا تھا جن پر 2002 اور 2003 میں انڈونیشیا میں مہلک حملوں میں مولث کا الزام ہے۔ لیکن ویکسین نہ لگے ہونے کی وجہ سے ایسے نہیں ہو پائے گا۔ 

2014 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب قیدیوں پر مقدمے کا آغاز ہونا تھا۔ 

حراستی مرکز پر سالانہ 44 کروڑ 50 لاکھ ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ اوباما انتظامیہ نے گوانتانامو بے کو بند کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہی۔ کانگریس نے وفاقی عدالت میں مقدمے کے سامنے کے لیے قیدیوں کی امریکہ منتقلی روک دی تھی جس پر انتظامیہ نے ایسے افراد کے کیسوں اور ان کی رہائی کا جائزہ لینا شروع کر دیا جن کی حراست کو غیرضروری سمجھا گیا۔

ٹرمپ کے دور اقتدار میں صدر نے ان جائزوں کو روک دیا اور اس کام کو نمٹانے کا ذمہ دار دفتر بند کر دیا گیا۔

ایک وقت ایسا تھا جب حراستی مرکز میں سب سے زیادہ سات سو قیدی تھے لیکن اب ان کی تعداد 40 رہ گئی ہے جن میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جنہیں رہائی کے لیے کلیئر کر دیا گیا لیکن وہ اب بھی وہاں قید میں اذیت سے گزر رہے ہیں۔

نائن الیون کے منصوبہ سازوں سمیت یہاں قید دوسرے قیدی اب بھی مقدموں کی کارروائی کے منتظر ہیں اور یہ عمل انتہائی سست روی سے آگے بڑھا ہے جس کی وجہ کئی سالوں تک اپیلوں کی سماعت، ججوں کی مسلسل تبدیلی، تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے شواہد کو خارج کروانے کی کوششیں، اور حکام کی جانب سے مختلف طریقوں سے دخل اندازی ہے جیسے ملزموں اور وکلا کے درمیان ملاقات کے کمروں میں باتیں سننے کے خفیہ آلات کی تنصیب اور وکلا کی ٹیموں میں ایف بی آئی کے مخبروں کی موجودگی۔

گوانتانامو میں بعض قیدی ایسے ہیں جو اس سے کئی زیادہ وقت گزار چکے ہیں جتنا وہ اس صورت میں  گزارتے کہ اگر انہیں  سزا ہو جاتی۔ 

بائیڈن انتظامیہ کے وزیر دفاع لوئڈ آسٹن نے کہا ہے کہ وہ اس متنازع حراستی مرکز کو بند کرنے کا سابق صدر اوباما کا وعدہ پور ا کریں گے، جس پر تنقید کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ اس مرکز میں تشدد اور غیرمعینہ مدت تک حراستیں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی  ہے۔

جیلوں میں کرونا وائرس کی وبا کا پھیلنا عام بات ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ