’پانچ سال سے کوئی ہڑتال نہیں‘: ایم کیو ایم کے بعد کا بدلا بدلا کراچی

لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تاہم ایک اہم سوال جواب طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کیا اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ آج کے حالات میں کچھ ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔

ایم کیو ایم کے یوم تاسیس پر ایک نہیں کئی تقاریب (اے ایف پی)

پاکستان میں ماضی میں ملکی سطح پر تیسری بڑی سیاسی جماعت اور سندھ کے دارالحکومت کراچی پر تین دہائیوں تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا آج 37 واں یوم تاسیس ہے۔

ایم کیو ایم کا یوم تاسیس گذشتہ چار سالوں سے جماعت کے بانی الطاف حسین کے بذریعہ ٹیلی فون شرکت کے بغیر منایا گیا ہے اور اس سال تو یوم تاسیس کی دو تقاریب ہوں گی، وہ بھی آج کے دن نہیں بلکہ اگلے ہفتے منائی جائیں گی۔  

اس بار ایم کیو ایم  اور سربراہ تنظیم (ایم کیو ایم پاکستان) بحالی کمیٹی ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے الگ الگ دن جماعت کا یوم تاسیس منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ چند روز قبل ایم کیو ایم پاکستان کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ’چند ناگزیر وجوہات‘ کے باعث یوم تاسیس کی تقریب آج 18 کی بجائے 25 مارچ کو نشتر پارک میں منائی جائے گی۔ 

جبکہ سربراہ تنظیم (ایم کیو ایم پاکستان) بحالی کمیٹی ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے 37 ویں یوم تاسیس کو 18 کی بجائے 28 مارچ کو کے ایم سی گراؤنڈ پی آئی بی کالونی میں منانے کا اعلان کیا ہے۔ 

ابتدا میں مہاجر قومی موومنٹ کہلانے والی اس پارٹی کے بانی الطاف حسین 17 ستمبر 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1970 اور 1971 میں فوجی تربیت کا کورس کرنے کے لیے پاکستانی فوج کی بلوچ رجمنٹ میں نیشنل سروس کیڈٹ سکیم میں شمولیت کی۔ اس کے بعد اسلامیہ سائنس کالج سے مائیکرو بیالوجی میں بی ایس سی کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی میں داخلہ لیا۔ 11 جون 1978 کو انہوں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) قائم کی۔  

الطاف حسین نے فوجی آمر ضیا الحق کے دور حکومت کے دوران 18 مارچ 1984 کو مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد ڈالی جو بعد میں متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔ 1991 میں الطاف حسین خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے برطانیہ چلے گئے، جہاں وہ تاحال مقیم ہیں۔ نقادوں کا الزام ہے کہ پاکستانی فوج کے آشیرباد سے ایم کیو ایم بنی، جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما ہمیشہ کہتے رہے کہ ان کے خلاف ریاست نے کئی آپریشن کیے تو فوج کی ان پر کیسی مہربانی ہے؟ 

پانچ سال اور کوئی ہڑتال نہیں

ایم کیو ایم کے عروج کے دنوں میں جماعت اتنی طاقتور تھی کہ کسی بھی واقعے پر صرف ایک اعلان کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی مرکز، کراچی چند منٹوں میں مکمل طور پر بند ہو جاتا تھا۔ 

چیئرمین سندھ تاجر اتحاد عتیق میر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’2016 سے پہلے آئے دن ہونے والی ہڑتالوں کے باعث پاکستان کے معاشی اور تجارتی مرکز کراچی کی معشیت زمیں بوس ہوچکی تھی۔ متعدد تاجر اور صنعت کار کراچی سے باہر یا پھر ملک سے باہر سرمایہ لے گئے، کیوں کہ وہ کراچی میں محفوظ نہیں تھے۔‘ 

’2016 میں رینجزر نے دو کام کیے۔ ایک تو نائین زیرو (کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر) کو سیل کر دیا اور دوسرا گینگ وار کو نیست و نابود کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، گذشتہ پانچ سالوں میں کراچی ایک دن کے لیے بھی کسی سیاسی ہڑتال کے باعث بند نہیں ہوا۔‘  

عتیق میر کے مطابق 2016 کے بعد تاجروں اور صنعت کاروں کا اعتماد بحال ہوا اور کئی تاجر اور صنعت کار اپنا سرمایہ واپس کراچی لے آئے۔ ’ابھی تک سٹریٹ کرائم ختم نہیں ہوئے مگر پھر بھی حالات بہت بہتر ہیں۔‘ 

ایک تقریر جس نے ٹکڑے کیے 

ایم کیو ایم کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1988 کے انتخابات کے بعد کسی بھی وفاقی حکومت کا ایم کیو ایم کی حمایت کے بغیر قائم رہنا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ مگر ایسی طاقتور پارٹی اپنی بانی کی ایک تقریر سے ٹکروں میں بکھر گئی۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

22 اگست 2016 کو الطاف حیسن نے لندن سے کراچی پریس کلب کے سامنے جمع اپنے کارکنوں سے خطاب کیا جو ملک کے تمام ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر ہوا۔ عدالتی حکم کے باعث اس خطاب کے الفاظ تو یہاں نہیں لکھے جاسکتے، مگر اس تقریر کے بعد الطاف حسین کی تقاریر نشر و شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور طاقتور جماعت کے مرکزی دفتر نائن زیرو کو سیل کرنے کے ساتھ ایم کیو ایم کے شہر بھر میں موجود پارٹی دفاتر کو مسمار کرنے کے ساتھ متعدد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔  

اس تقریر کے بعد ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم لندن سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے، ایم کیو ایم پاکستان کا قیام عمل میں لایا۔ بعد میں ایم کیو ایم کے ایک اور اہم رہنما مصطفیٰ کمال نے جماعت کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ 23 مارچ 2016 کو الطاف حسین پر شدید تنقید کرنے کے ساتھ ہی ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے، نئی سیاسی جماعت پاک سر زمین پارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ 

بعد میں ایم کیو ایم پاکستان میں بھی اختلافات شدید ہوگئے اور یہ نیا دھڑا دو حصوں، ایم کیو ایم بہادر آباد اور ایم کیو ایم پی آئی بی کالونی، میں بٹ گیا۔ 

کچھ عرصے بعد ایم کیو ایم بہادر آباد کے ناراض رہنماؤں نے بظاہر تو ڈاکٹر فاروق ستار کو تنظیم بحالی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا، مگر اصل میں انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک حالیہ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 

کارکن آج بھی پرامید

ایم کیو ایم کے بڑی تعداد میں کارکن اور رہنما تاحال پرامید ہیں کہ ابھی بھی جماعت بحال ہوسکتی ہے۔ سینیئر رہنما خواجہ اظہار الحسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے کہا کہ ’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ماضی میں طاقتور رہنے والی ایم کیو ایم اب کمزور ہوچکی ہے تو یہ ان کی بھول ہے۔ ایم کیو ایم آج بھی وہی سیاسی طاقت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’پارٹی میں کچھ بحران ضرور آیا ہے، مگر یہ بحران صرف پارٹی قیادت کا بحران ہے۔ پارٹی میں موجود چند موقع پرستوں نے مہاجر مقصد کو ہائی جیک کیا اور انہوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا، مگر پارٹی آج بھی ایک سیاسی قوت ہے۔‘

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار اور سندھی زبان کے معروف اینکر پرسن فیاض نائچ نے کہا کہ ایم کیو ایم کی جو سیاسی قوت ایک قدرتی قوت نہیں تھی، اس لیے چل نہیں سکی۔  

ان کا کہنا تھا: ’جب ضیا دور میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی چلا کر انہیں مشکل میں ڈالا تو اسٹیبلشمنٹ نے پی پی پی کی سیاسی قوت کے سامنے ایم کیو ایم کو بنایا۔ بعد میں ایم کیو ایم کی دشمن ممالک سے گٹھ جوڑ ثابت ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ ہٹا لیا۔ آخر کار اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔‘ 

ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما ندیم نصرت نے 2014 میں ایک انٹرویو میں واضح کر دیا تھا کہ ان کی جماعت مائنس ون فارمولے پر تیار نہیں ہوگی۔ ’الطاف بھائی 36 سال سے اس جماعت کی قیادت کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ وہ تبدیلی کے سوال پر غور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔‘

بعض لوگوں کے مطابق الطاف حسین کا جماعت سے الگ ہونا شاید اس پارٹی کو بچا لیتا لیکن اس کی شکل و صورت اس وقت کیا ہوتی کچھ کہنا مشکل ہے۔

فیاض نائچ کے مطابق متنازع تقریر کے بعد بھی الطاف حسین نے اپنا رویہ درست نہ کیا اور ناصرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کی مگر اس کے ساتھ شدت پسند سندھ کی پاکستان سے علیحدگی کی تحریک چلانے والے سندھی رہنما شفیع برفت سے ملاقات بھی کی۔

ان کے مطابق ’الطاف حسین نے اس طرح کے کئی اور کام کیے تو اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کرتے ہوئے اپنی بنائی ہوئی جماعت کو ختم کر دیا۔‘

لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تاہم ایک اہم سوال جواب طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کیا اب قصہ پارینا بن چکی ہے۔ آج کے حالات میں کچھ ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست