بھارت میں قبرستانوں، شمشان گھاٹوں میں جگہ کم پڑ گئی

بھارت میں جاری کرونا کی دوسری مہلک لہر کے دوران مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جس سے قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔

دنیا بھر میں کرونا (کورونا) وائرس کے کیسز کی تعداد میں سب سے بڑے مسلسل اضافے کا سامنا کرتے ملک بھارت میں اس وبا سے اموات میں اضافے کے بعد شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں جگہ کم پڑ گئی۔

دارالحکومت نئی دہلی میں حکومت نے شمشان گھاٹوں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ اپنی گنجائش کو دگنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھائیں تاکہ طلب کو پورا کیا جاسکے۔

کئی مقامات کے باہر لوگوں کو ایمبولینسوں کی قطاروں میں انتظار کرتے دیکھا گیا جبکہ کئی جگہ میتیں گھنٹوں تک سڑک کنارے بھی پڑی رہیں۔

دہلی کا سب سے بڑا شمشان گھاٹ نگم بدھ گھاٹ، جس میں شہر کے چھ کووڈ ہسپتالوں سے آنے والی میتوں کو جلانے کے لیے لایا جا رہا ہے، نے اپنی گنجائش 36 سے بڑھا کر 63 چتائیں کر دی ہیں۔ اس کے باوجود یہاں کرونا سے ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو گھنٹوں تک انتظار کروایا جا رہا ہے۔

لاشوں کو شمشان گھاٹ منتقل کرنے والے ہستپال کے طبی عملے کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جو بھی یہاں آ رہا ہے اسے کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔‘

اتوار کی رات کو بظاہر فٹ پاتھ پر جلائی جانے والے چتاؤں کی ویڈیو سامنے آئی جو کہ دہلی سے متصل شہر غازی آباد کے ہندول گھاٹ کی تھی۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔

شمشان گھاٹ کے ملازم راجیو اگروال نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ شمشان گھاٹ لائی جانے والی لاشوں کو کم سے کم 12 گھنٹے تک انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے کووڈ متاثرین کے لیے کچھ چتائیں علیحدہ کردی ہیں اور ہر چتا کو جلنے کے لیے دو سے تین گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ہر گزرتے دن کے ساتھ شمشان گھاٹ لائے جانے والے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’یہاں آنے والے افراد کو آخری رسومات ادا کرنے کے لیے کم سے کم نصف دن یا اس سے زائد انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ لاشوں کو فٹ پاتھ پر جلایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق چتاؤں کو جلانے کے لیے انتظامات کیے گئے تھے اور یہ انتظامات گھاٹ کی حدود کے اندر کیے گئے ہیں۔ 

سیماپوری شمشان گھاٹ، جہاں دہلی کے دو بڑے کووڈ ہسپتالوں سے مریضوں کو لایا جا رہا ہے، کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے شمشان گھاٹ میں لائی جانے والی میتوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ 

کئی گھاٹوں کے ملازمین کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران آنے والے کووڈ متاثرین کی میتوں کی تعداد کے مقابلے میں رواں سال یہ تعداد کافی زیادہ تھی۔ 

ایک جانب جہاں دنیا کے زیادہ تر ممالک کے مقابلے میں کم شرح اموات اور ویکسین کی تیاری کے باعث بھارت کی تعریف کی جاتی رہی ہے، وہیں ایک زیادہ جان لیوا دوسری لہر ملک کو ایک مایوس کن صورت حال کی جانب دھکیل رہی ہے۔

بھارت میں اس وقت دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر کرونا وائرس کے کیسز کی سب سے بڑی تعداد رپورٹ کی جا رہی ہے اور بھارت برازیل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے امریکہ کے بعد دنیا کا دوسرا متاثرہ ترین ملک بن چکا ہے۔ 

بھارت میں پیر کو کرونا کے دو لاکھ 73 ہزار 810 نئے کیسز رپورٹ کیے گئے جبکہ 1619 اموات کی بھی تصدیق ہوئی، جس کے بعد ملک بھر میں کرونا کیسز کی تعداد ایک کروڑ 50 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ ملک میں گذشتہ پانچ دن میں مسلسل دو لاکھ کیسز سے زائد کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ 

سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار پوسٹس دیکھی جا سکتی ہیں جن میں لوگ ہسپتالوں میں جگہ ختم ہونے کے بعد نئے مریضوں کے لیے جگہ ڈھونڈنے میں مدد طلب کر رہے ہیں۔ ہسپتالوں کے باہر داخلے کے لیے انتظار کرتے افراد کی اموات کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں جبکہ آکسیجن سلینڈرز بھی نایاب ہو چکے ہیں۔  

بھارت کے مقامی میڈیا میں شمشان گھاٹوں کے باہر لاشوں کے ڈھیر موجود ہونے کی خبریں بھی چل رہی ہیں جبکہ ملازمین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق صورت حال سرکاری اعداد و شمار کے مقابلے میں زیادہ ابتر ہو چکی ہے۔ 
 

بھارتی خبروں کے ادارے ’دا وائر‘ کے مطابق شمالی ریاست اترپردیش، جہاں بھارت میں کرونا کیسز کی دوسری سب سے بڑی تعداد موجود ہے، کی حکومت نے آگرہ، غازی آباد اور جھانسی جیسے شہروں میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ایک بھی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی اور بریلی میں صرف ایک ہلاکت کی تصدیق کی ہے، وہیں ان علاقوں میں موجود شمشان گھاٹوں میں لوگوں کے بڑے اجتماعات موجود رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر کئی افراد ہسپتالوں میں بستر کی دسیتابی کا بھی پوچھتے دکھائی دیے ہیں۔ 

دہلی کے وزیراعلیٰ ارویند کیجریوال کا کہنا ہے کہ شہر میں انتہائی نگہداشت کے وارڈز میں گنجائش ختم ہو گئی ہے اور بڑھتے کرونا کیسز کے باعث آکسیجن کی کمی کا سامنا بھی ہے۔ انہوں نے ایک ہفتے کے لاک ڈاؤن کا اعلان بھی کیا ہے۔ 

وزیر اعظم نریندرا مودی کی وفاقی حکومت کو ریاست مغربی بنگال کے انتخابات کے دوران بڑے سیاسی اجتماعات جاری رکھنے پر بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جبکہ مودی انتظامیہ نے کمبھ میلے کی اجازت بھی دے دی ہے، جسے دنیا بھر میں سب سے بڑا مذہبی اجتماع مانا جاتا ہے۔ اس اجتماع میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں جو دریائے گنگا پر پہنچ کے وہاں اشنان کرتے ہیں۔

رواں ماہ منعقد ہونے والے اس میلے میں شریک کئی افراد کرونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا