طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں برقعوں کی قیمت دگنی

صوبے تخار میں طالبان کا 16 اضلاع پر قبضہ ہوگیا ہے جس کے بعد وہاں سے خواتین کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی اور شہریوں کو داڑھی رکھنے کی ہدایت کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔

افغانستان سے ایک طرف غیرملکی افواج کا انخلا اپنے حتمی مراحل کی جانب گامزن ہے تو دوسری جانب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تناؤ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس کے باعث دونوں ہی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔

افغان حکام کی جانب سے آئے دن بیانات سامنے آتے ہیں کہ مختلف علاقوں میں متعدد طالبان شدت پسند ہتھیار ڈال چکے ہیں جبکہ طالبان کی طرف سے بھی ایسے ہی دعوے سامنے آئے ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ ’بڑی تعداد‘ میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔

ایسے میں افغان شہریوں میں بھی خوف پایا جاتا ہے اور وہ اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے لیے کافی پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان کے شمالی علاقوں میں طالبان کے حملوں کے بعد ایک ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار ہمسایہ ملک تاجکستان ’فرار‘ ہو گئے ہیں۔

طالبان نے گذشتہ ہفتے شمال مشرقی صوبے تخار کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور صوبے کے تقریباً 16 اضلاع میں قدم جما لیے ہیں جس کے بعد وہ اب صوبے میں تالقان کے مرکز کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔

طالبان کی پیش قدمی کے ساتھ تخار میں رہنے والے افراد کی زندگیوں میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ طالبان دور کی پابندیاں لوٹ آئی ہیں اور ہرسمت خوف کی فضا پھیل چکی ہے۔ انڈپینڈنٹ فارسی نے تخار کے مکینوں سے طالبان کے زیرقبضہ علاقوں میں معمولات زندگی پر بات کی۔

تالقان میں سمین حسینی تخار میں مقامی ریڈیو ’ہم صدا‘ کی ڈائریکٹر ہیں۔ ان کے ادارے کے تمام 12 ملازمین اور خود ڈائریکٹر خاتون ہیں۔ ان کے زیادہ تر پروگرام خواتین کی تعلیم کے مقصد کے تحت تیار کیے جاتے ہیں۔ سمین نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا: ’16 اضلاع میں سے تالقان واحد مرکز ہے جو حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ طالبان نے پابندیاں عائد کر دی ہیں اور معیار مقرر کر دیا ہے جسے لوگوں نے لازمی طور پر قبول کرنا ہے۔ مثال کے طور پر خواتین محرم کے بغیر کہیں نہیں جائیں گی۔‘

سمین کہتی ہیں کہ اس کا مطلب خواتین کو گھر کی چار دیواری تک محدود رکھنا ہے کیونکہ کوئی خاتون ہمیشہ کسی محرم کے ساتھ نہیں باہر نہیں جا سکتی ہے۔

ریڈیو کی خواتین ملازمین اکٹھے ہو کر گھر سے باہر نہیں نکلتیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ تالقان پر طالبان کا قبضہ ہو جائے گا جبکہ ریڈیو پروگرام بند کر دیے گئے ہیں۔ سمین پرانے پروگرام نشر کر کے تخار کی خواتین کی آواز بلند رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے ریڈیو پروگرامز کو ان شہروں میں بھی سنا جا سکتا جہاں طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ ریڈیو ’ہم صدا‘ اب طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں خواتین کی امید کا واحد ذریعہ بن چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سمین حسینی مزید کہتی ہیں: ’میرا کئی اضلاع میں بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطہ ہے۔ ان لوگوں کو امید ہے کہ موجودہ صورت حال عارضی ہے۔ میں لوگوں کو بتاتی ہوں کہ وہ ان حالات میں احتیاط سے کام لیں۔ خواتین کو گھرکی دیواروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ جب تک مرض شدت اختیار نہیں کر جاتا اور کوئی محرم ساتھ نہیں ہوتا مریض خواتین گھر سے نکلنے کی جرات نہیں کرتیں۔ برقعے کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ وہ لڑکیاں جو برقعہ نہیں پہنتی تھیں وہ برقعہ خریدنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ برقعے کی قیمت سات سو افغانی سے بڑھ کر 15سو افغانی ہو گئی ہے۔‘

سمین کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ لوگوں کو علم ہے طالبان تاریک دور کی تیاری کر رہے ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں تک طالبان نے خواتین سے دشمنی برقرار رکھی ہے اور اب فریق ایک دوسرے کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ تاہم سمین نے صرف تازہ عائد کی گئی پابندیوں کا ذکر کیا۔ تخار کے ایک اور شہری جنہوں نے سلامتی کو لاحق خطرے کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کا کہنا تھا کہ زیادہ تر پابندیاں طالبان کے چوٹی کے جنگجو مولوی کبیر نے عائد کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی اطلاعات ہیں کہ طالبان لوگوں کو ہراساں کرنے میں مصروف ہیں۔ طالبان لوگوں کے گھروں میں گئے اور انہیں کہا کہ وہ طالبان جنگجوؤں کے لیے کھانا بنائیں۔ اب ہر گھر سے خوارک حاصل کرنے کی باری ان کی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ محاذوں میں شامل ہوں۔ انہوں نے قیمتوں کی فہرست تیار کی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ لڑکیوں کے لیے جہیز متحدہ عرب امارات کی کرنسی میں طے کیا گیا ہے جو ایک لاکھ افغانی بنتے ہیں۔ طالبان نے نظام تعلیم تبدیل کیا ہے اور کہا ہے کہ خواتین محرم کے بغیر باہر نہیں نکل سکتیں۔ انہوں نے لوگوں کو داڑھی رکھنے کا کہا ہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو تخار کے اضلاع میں ہوئے ہیں۔‘

تخار کے مکینوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ طالبان نے مساجد میں دیے گئے خطبوں میں کہا ہے کہ لڑکیاں چھٹی جماعت سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں جبکہ لڑکوں، لڑکیوں کے سکول اور یونیورسٹیاں بھی الگ الگ ہونی چاہییں۔ جہیز طے ہونے سے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ طالبان جہیز کے بدلے نوجوان خواتین کی اپنے جنگجوؤں کے ساتھ زبردسی شادیاں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ وہ لوگ جن کے گھر میں تین بیٹیاں ہیں وہ ایک بیٹی کی شادی کسی مجاہد کے ساتھ کریں تاہم اس خبر کی دوسرے ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی۔

دوسری جانب طالبان کی کئی علاقوں میں پیش قدمی سے دارالحکومت کابل میں بھی خواتین خوف زدہ ہیں جنہیں ڈر ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں حاصل کی گئی آزادیاں طالبان کے قبضے سے چھن جائیں گی۔ 

18 سالہ بریک ڈانسر مینزہ تلاش نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اگر ماضی کی طرح لڑکیوں کو پنجروں میں ڈال دیا گیا ان کے مقاصد کچلے گئے اور خوابوں کو نظر انداز کیا گیا تو میرے خیال میں زندگی بے معنی ہو جائے گی۔‘

بیوٹیشن کے طور پر کام کرنے والی خاتون نے کہا کہ ابھی خواتین کو قدرے آزادی حاصل ہے مگر اگر طالبان نے ملک پر قبضہ کرلیا تو حالات ایسے نہیں رہیں گے۔

’اگر طالبان واپس آتے ہیں تو ہمیں خوف ہے کہ ماضی کو دوہرایا جائے گا۔ ہم اس دور کی واپسی نہیں چاہتے۔ اگر ایسا ہوا تو ہم یہ ملک چھوڑ جائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا