طالبان اور کابل آج دوحہ میں مذاکرات کی میز پر

دوحہ میں افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کی ترجمان کے مطابق ’دونوں فریقوں کے درمیان اہم بات چیت کے لیے اعلیٰ سطح کا وفد یہاں موجود ہے۔‘

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے آخری مراحل میں ہی بڑھتے ہوئے تشدد کے باوجود افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے آج (ہفتے کو) دوحہ میں امن مذاکرات کے لیے ملاقات کر رہے ہیں۔

قطر کے دارالحکومت میں دونوں فریقوں کے درمیان کئی ماہ سے مذاکرات کا سلسلہ تعطل کے ساتھ جاری رہا لیکن طالبان کی جانب سے میدان جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابی کے بعد بات چیت کی رفتار سست پڑ گئی تھی۔

دوحہ میں افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کی ترجمان نازیہ انوری نے اے ایف پی کو بتایا: ’دونوں فریقوں کے درمیان اہم بات چیت کے لیے اعلیٰ سطح کا وفد یہاں موجود ہے جو ان کی رہنمائی کرنے اور (حکومتی) مذاکراتی ٹیم کی مدد کرنے کے لیے یہاں پہنچا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم توقع کرتے ہیں کہ اس سے بات چیت میں تیزی آئے گی اور دونوں فریق جلد کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے اور ہم افغانستان میں پائیدار اور باوقار امن کا مشاہدہ کریں گے۔‘

طالبان امریکی اور دیگر غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے آخری مراحل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنے حملوں میں تیزی لائے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے ساتھ اہم جنوبی سرحدی گزرگاہ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جاری آپریشن کے دوران افغان فورسز کی جمعے کو سپین بولدک میں طالبان جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ 

انہوں نے شمال میں بھی کئی مقامات پر پوزیشن مستحکم بنا لی ہے جہاں جنگجوؤں کے مضبوط گڑھ پر قبضے کے لیے کئی روز سے جنگ جاری تھی۔

جنوبی سرحد پر ہونے والی لڑائی ہفتوں سے جاری پورے افغانستان میں ہونے والی جھڑپوں کے سلسلے کا حصہ ہے جہاں طالبان متعدد فوجی کارروائیوں کے ذریعے درجنوں اضلاع میں حیرت انگیز طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔

افغانستان کے بڑے حصے میں لڑائی پھیلنے کے بعد کابل اور اسلام آباد کے مابین اس وقت لفظی جنگ میں بھی تیزی دیکھی گئی جب افغان نائب صدر نے پاکستانی فوج پر ’بعض افغان علاقوں میں طالبان کو فضائی مدد فراہم کرنے‘ کا الزام عائد کیا۔

وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے سرحد کے قریب ’اپنی فوج اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے علاقے میں ضروری اقدامات کیے۔‘

اسلام آباد نے افغانستان میں جاری تشدد سے نمٹنے کے لیے علاقائی رہنماؤں کی ایک کانفرنس بھی بلائی تھی جس کو عید الاضحیٰ کے بعد تک موخر کر دیا گیا ہے۔

نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکی قیادت میں غیر ملکی فوجی تقریباً دو دہائیوں سے افغانستان میں موجود رہے لیکن امریکی انخلا کے اعلان کے بعد تمام غیر ملکی افواج جنگ زدہ ملک سے جلد نکل جائیں گی جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ان کی فراہم کردہ اہم فضائی مدد کے بغیر افغان افواج جلد مغلوب ہوجائیں گی۔

روس کے وزیر خارجہ نے جمعے کو کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی مشن ’ناکام‘ ہوگیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا