’پاکستان افغان فٹ بال ٹیم کی محصور کھلاڑیوں کو داخلے کی اجازت دے گا‘

کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک خط جسے دی انڈپینڈنٹ نے دیکھا ہے، میں کہا گیا ہے کہ وہ ان 32 لڑکیوں کو عارضی ویزے جاری کرے گا جو ہمسایہ ملک میں محصور ہیں۔

20 جون 2010 کو کابل میں نیشل فٹ بال ٹیم کی لڑکیاں پریکٹس کر رہی ہیں (اے ایف پی)

دی انڈپینڈنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نے کہا ہے کہ وہ افغان گرلز نیشنل یوتھ فٹ بال ٹیم کی ان درجنوں نوجوان کھلاڑیوں کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے جو اس وقت افغانستان میں کسی خفیہ مقام پر محصور ہیں۔

کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک خط  جسے دی انڈپینڈنٹ نے دیکھا ہے، میں کہا گیا ہے کہ وہ ان 32 لڑکیوں کو عارضی ویزے جاری کرے گا جو ہمسایہ ملک میں محصور ہیں۔ دی انڈپینڈنٹ سمجھتا ہے کہ لڑکیاں مجموعی طور پر 80 لوگوں کے اس گروپ کا حصہ ہیں جس میں ان کے رشتہ دار اور فٹ بال کوچز شامل ہیں۔

مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا خاتون کھلاڑیوں کے خاندان کے ارکان اور فٹ بال کے عملے کو بھی پاکستان میں داخل ہونے کے لیے ویزا دیا جائے گا یا نہیں لیکن اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ لڑکیوں کو ان لوگوں کے بغیر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔

یہ پیشرفت دی انڈپینڈنٹ کے اس حالیہ انکشاف کے بعد ہوئی جس میں بتایا گیا کہ 32 لڑکیاں افغانستان میں محصور ہیں۔ اس سے پہلے دی انڈپینڈنٹ نے ایک خط دیکھا جس میں پاکستان کے وزیر اعظم سے فوری مدد کی درخواست کی گئی تھی۔

خط میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان پر زور دیا گیا کہ افغان لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کو عارضی ویزا جاری کیا جائے تا کہ وہ پاکستان جا سکیں۔ خط میں خبردار کیا گیا کہ ’وقت گزر رہا ہے‘ اور لڑکیوں کو طالبان اور ’سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال‘ سے ’سنگین خطرات‘ لاحق ہیں۔

مہم چلانے والے والوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ نوجوان افغان خواتین جن میں متعدد کم عمر ہیں، مختلف مقامات پر چھپی ہوئی ہیں جبکہ ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ طالبان ان کا کھوج لگانے کے لیے ہوٹلوں کی تلاشی لینے میں مصروف ہیں۔ 

خط کے مطابق: ’کم عمر اور نوجوان ایتھلیٹس کو فوری خطرہ لاحق ہے کیونکہ ان کا تعلق افغانستان میں خواتین کے فٹ بال سے ہے اور انہوں نے قومی سطح پر فٹ بال کے ٹورنامنٹس میں حصہ لیا۔‘

اس خط پر لندن میں پیدا ہونے والے کاشف صدیق کے دستخط ہیں جو پاکستان کی بین الاقوامی فٹ بال ٹیم کے لیے کھیل چکے ہیں اور فٹ بال فار پیس نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے شریک بانی ہیں۔

اس خبر پر کہ افغان لڑکیوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی، تبصرہ کرتے ہوئے ایمنسٹی برطانیہ کے سربراہ ساشا دیش مکھ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’یہ بہت بڑی سہولت ہے کہ لڑکیوں کو پناہ دے دی گئی ہے لیکن یہ بڑی خوفناک بات ہے کہ انہیں فٹ بال کھیلنے جیسے معمولی کام کی وجہ سے اتنے خطرے کا سامنا تھا۔ یہ اس خوفناک نئی دنیا کی یاد دہانی ہے جس کا افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو گذشتہ چند ہفتے سے سامنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماضی میں طالبان کے دور حکومت میں خواتین کو کام پر اور لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا گیا تھا۔ خواتین کے لیے لازمی قرار دیا گیا تھا کہ وہ کسی مرد رشتہ دار کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں۔

ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی ڈائریکٹر ہیدر بار کہتی ہیں: ’اگرچہ پاکستان نے افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کو داخلے کی اجازت دینے پر اتفاق کر لیا ہے تو یہ زبردست خبر ہے۔ ٹیم کی ارکان کی سلامتی کے حوالے سے خدشات میں صرف گذشتہ طالبان عہدے دار کے ان بیانات کے بعد اضافہ ہو گا جن میں کہا گیا کہ خواتین کو کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

افغانستان پر تحقیق کرنے والی سابق محقق بار کا استدلال ہے کہ ہمسایہ ممالک افغانستان میں ’فوری خطرے سے دو چار‘ خواتین کی حمایت میں مؤقف اختیار کرنے کے معاملے میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں تا کہ ان خواتین کو تحفظ حاصل ہو جائے کیونکہ افغانستان سے فضائی راستے سے انخلا ’کم از کم عارضی طور پر‘ روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’اس فوری معاونت کی فراہمی میں عالمی برداری کو افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کی مدد کرنے چاہیے۔‘

فٹ بال فار ہیومینیٹی کے بانی کرس تھامس نے اس حقیقت کی مذمت کی ہے کہ نوجوان لڑکیوں کو محض کھیلوں میں حصہ لینے کی وجہ سے جان کا خطرہ ہے۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ سے بات چیت میں کہا: ’یہ صورت حال اس تباہ کن ثقافت کے بارے میں بہت کچھ بتا رہی ہے جو طالبان ان برسوں میں پروان چڑھاتے رہے ہیں۔ وہ لڑکیاں جنہوں نے اپنی آزادی، بقا اور ترقی کے خوابوں کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، کھیل کی اس طاقت کا ثبوت ہیں جو ان حالات میں بھی انسانی حوصلہ بلند رکھتی ہے جن پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا۔

’انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ دیکھ بھال کی جائے کیونکہ وہ امید کی علامت بنیں گی، خاص طور پر ان بہت سے نوجوان لوگوں کے لیے جو خاموشی سے تکلیف برداشت کر رہے ہیں لیکن ان کا حوصلہ اسی طرح ناقابل تسخیر ہے جیسے ان ایتھلیٹس کا جن کے وہ مداح ہیں۔ آج پاکستان ان کی مدد کر رہا ہے۔ کل کھیلوں کی پوری دنیا کو ایسا کرنے کی ضرورت ہو گی۔ ہمیں دنیا پر ثابت کرنا ہو گا کہ کھیلوں میں دنیا کو تبدیل کرنے کی طاقت ہے۔‘

گذشتہ سال جب سے طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات شروع ہوئے افغانستان کی صحافی خواتین اور صحت کی کارکنوں کو حملے کر کے قتل کیا گیا۔  طالبان نے ان حملوں کی تردید کی لیکن سرکاری حکام نے انہیں ذمہ دار قرار دیا۔

دریں اثنا حال ہی میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں خوراک اور دوسری ضروری خدمات تک رسائی جلد ختم ہو جائے گی۔

عالمی ادارے نے اس حوالے سے بھی خبردار کیا ہے کہ اس وقت ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو انسانی سانحے کا سامنا ہے جبکہ مزید ایک کروڑ 80 لاکھ افراد تیزی سے اسی صورت حال کا شکار ہو سکتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل