افغانستان صورت حال پر چین، نیٹو سربراہان کی ’مثبت‘ ملاقات

بیجنگ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی کا مخالف رہا ہے جبکہ چین نے امریکہ کے انخلا پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے اسے جلد بازی اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا تھا۔

روسی وزیر خارجہ کی جانب سے 14 جولائی 2021 کو جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شریک ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی)

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے علاقائی پالیسیوں اور افغانستان کی صورت حال پر نیٹو کے سربراہ جینز سٹولٹن برگ کے ساتھ ورچوئل ملاقات کی۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب بیجنگ اور امریکہ کے درمیان خطے کی پالیسیوں کے حوالے سے دیرینہ اختلافات پائے جاتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق چینی وزارت خارجہ نے منگل کو کہا کہ وزیر خارجہ وانگ یی اور نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس سٹولٹن برگ نے گذشتہ روز ’مشترکہ تشویش کے مسائل‘ پر بات چیت کی، جو ’مثبت اور تعمیری‘ رہی۔

چینی حکام نے مذاکرات کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

بیجنگ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی کا مخالف رہا ہے، جس کے ساتھ افغانستان کی ایک تنگ سرحد منسلک ہے۔دوسری جانب چین نے امریکہ کے انخلا پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے اسے جلد بازی اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا، جس کے نتیجے میں طالبان اقتدار میں آئے۔

بیجنگ نے کہا کہ پیر کو دونوں عہدیداروں نے چین اور نیٹو کے درمیان انسداد دہشت گردی، بحری قزاقی، سائبر سکیورٹی اور بین الاقوامی امن کی بحالی سمیت دیگر مسائل پر عملی تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت بڑھانے پر اتفاق کیا۔

سٹولٹن برگ نے میٹنگ میں خطے کے ممالک کے مابین ’مربوط بین الاقوامی نقطہ نظر کی اہمیت‘ پر بھی زور دیا تاکہ طالبان کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور انسانی حقوق اور کم از کم خواتین کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے وعدوں کے لیے جوابدہ ٹھہرائیں۔

واضح رہے کہ چین نے کابل میں اپنا سفارت خانہ کھول رکھا ہے اور طالبان گروپ کے ساتھ بیجنگ کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔

رواں برس جولائی میں چین نے ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے اعلیٰ وفد کی میزبانی بھی کی تھی۔

اس ملاقات میں چینی وزیر خارجہ نے طالبان کو ’افغانستان میں ایک اہم فوجی اور سیاسی قوت‘ کہا تھا، جن سے توقع ہے کہ وہ ’امن، مفاہمت اور تعمیر نو کے عمل میں اہم کردار' ادا کریں گے۔


افغانستان سے فرار کے لیے صحافیوں کی غلط شناخت کے استعمال کی تحقیقات کا مطالبہ

کابل میں صحافیوں نے طالبان کی عبوری حکومت اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک چھوڑنے کے لیے صحافیوں کی غلط شناخت کو استعمال کرنے والوں کی تحقیقات کریں۔

ایک اجتماع میں صحافیوں نے بتایا کہ افغانستان میں کچھ اداروں نے صحافیوں کے نام پر اپنے ملازمین اور رشتہ داروں کو نکال لیا ہے جبکہ حقیقی نامہ نگار ملک میں اب بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ 

صحافیوں کے مطابق کچھ ادارے ایسے لوگوں کے لیے جعلی شناختی کارڈ اور صحافتی دستاویزات جاری کرتے ہیں جو ملک سے نکلنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ 

افغان نیوز ویب سائٹ طلوع نیوز کے مطابق ایک نامہ نگار مختار ابراہیمی نے بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ کابل اور دیگر صوبوں میں متعدد ادارے 100 ڈالر کے عوض صحافیوں کی جعلی دستاویزات جاری کرتے ہیں۔


طالبان سے افغانستان کی سی پیک میں شمولیت پر بات ہوئی ہے: پاکستانی سفیر

افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر نے کہا ہے کہ اسلام آباد نے طالبان کے زیرقیادت افغانستان کو چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) انفراسٹرکچر پراجیکٹ میں شامل کرنے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’علاقائی روابط افغان قیادت کے ساتھ ہماری بحث کا ایک اہم عنصر ہیں اور افغانستان کے ساتھ ہمارے معاشی روابط کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہیں۔‘

سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک مرکزی حصہ ہے، جس کے تحت چین پاکستان میں 60 ارب ڈالر سے زیادہ کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بنائے گا، جس کا زیادہ تر حصہ قرضوں کی شکل میں ہے۔

پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے کہا کہ طالبان قیادت سے سی پیک اور افغانستان کی معاشی ترقی کے دیگر طریقوں پر بات چیت ہوئی ہے۔

’میرے خیال میں پاکستان، ایران، چین اور وسطی ایشیائی ممالک سمیت دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ سی پیک کے ذریعے افغانستان کے اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے معاملے میں گہری دلچسپی رہی ہے۔‘

حالیہ دنوں میں پاکستان، چین اور روس کے نمائندوں نے طالبان اہلکاروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے کہا کہ سکیورٹی اور معاشی ترقی بات چیت کے دو اہم موضوعات تھے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کے مرکزی بینک کے بیرون ملک اثاثے کو منجمد کرنے سے ملک کی معیشت پر بہت برا اثر پڑا ہے، امریکی ڈالروں میں لین دین نہیں ہو پا رہا جس سے تجارت پر بھی اثر پڑا ہے۔ 

ان کے مطابق پاکستان عالمی برادری کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ پابندیوں میں نرمی لائی جا سکے۔ 

طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان عالمی برادری کا حصہ ہے اور باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کے معاملات بعد میں آئیں گے۔‘


بیلجیئم میں افغان سفارت خانے میں حملہ آور

افغانستان کے شہری ہونے کا دعویٰ کرنے والے کئی افراد نے بیلجیئم میں افغان سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہو کر اس کی عمارت کو نقصان پہنچایا ہے۔

بیلجیئم میں افغان سفارت خانے کی جانب سے پیر کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اتوار کی رات چھ افراد نے عمارت کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ دیے، گارڈ کو چاقو سے مارنے کی دھمکی دی اور سفات عمارت میں داخل ہوئے۔ 

اس عمارت میں یورپی یونین اور نیٹو کے افغانستان کے مشن کے دفاتر بھی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ حملہ آوروں نے سکیورٹی کیمرے توڑ دیے اور متعدد فائلیں اور دستاویزات تباہ کر دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیلجیئم میں افغان سفارت خانے کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس کو فون کرنے پر مجبور کیا گیا، جس نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا۔

سفارت خانے کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حملہ آور کون تھے یا ان کے مطالبات کیا تھے۔ 

طالبان کے چھ ہفتے قبل کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کی حکومت کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے اور سابق حکومت کے نمائندے اور سفیر اب بھی پہلے کی طرح کام کر رہے ہیں۔

لیکن طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ اقوام متحدہ کو لکھے گئے ایک خط میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے قطر میں گروپ کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا بظور مستقل نمائندہ نام بھی دیا، لیکن اسے ابھی تک قبول نہیں کیا گیا ہے۔


امریکی جرائم کی بجائے طالبان اور داعش کی کارروائیوں پر توجہ دیں گے: آئی سی سی پراسکیوٹر

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے نئے پراسیکیوٹر کریم خان نے پیر کو کہا ہے کہ وہ مبینہ امریکی جرائم کی بجائے طالبان اور داعش خراسان گروپ کی افغانستان میں کارروائیوں پر توجہ مرکوز کریں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کریم خان نے ججوں سے کہا کہ وہ افغانستان کے معاملے کی عدالتی تحقیقات دوبارہ شروع کریں، جو گذشتہ سال کابل کی درخواست پر روک دی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کا مطلب ہے کہ جنگی جرائم کی مزید مناسب طریقے سے تحقیقات نہیں کی جائے گی۔

لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے اس پر غصے کا اظہار کیا ہے۔ رواں برس جون میں آئی سی سی میں اصلاحات کے عزم کے ساتھ عہدہ سنبھالنے والے کریم خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی افواج کی تحقیقات کو ’ترجیح نہیں دیں گے‘ اور افغانستان میں سرگرم گروہوں پر توجہ دیں گے۔

ہیگ میں قائم آئی سی سی کی افغانستان کے حوالے سے تحقیقات نے طویل عرصے سے واشنگٹن کو مشتعل کر رکھا ہے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کریم خان ​​کے پیشرو فاتو بینسودا پر پابندیاں لگا دی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا