ججز اور بیوروکریٹس کے لیے پلاٹ سکیم غیرآئینی: عدالت

عدالت نے سیکرٹری ہاؤسنگ کو دو ہفتے میں فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’توقع ہے کابینہ اور وزیراعظم چاروں سیکٹرز سے متعلق مفاد عامہ کے تحت پالیسی بنائیں گے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کا ایک منظر (تصویر:  بشکریہ اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے دارالحکومت کے خصوصی سیکٹرز میں ججز، بیوروکریٹس اور افسران کے لیے پلاٹ مختص کرنے کی سکیم کو ’غیر آئینی اور غیر قانونی‘ قرار دے دیا۔ عدالت کے مطابق اس سکیم سے قومی خزانے کو دس کھرب (ایک ٹریلین) کا نقصان پہنچا ہے۔

ہائی کورٹ نے سیکٹرز ایف12، جی 12، ایف 14اور 15 میں  سرکاری افسران کو پلاٹ دیے جانے کی سکیم پر اپنے فیصلے میں کہا کہ ’یہ سکیم غیر آئینی، غیر قانونی اور مفاد عامہ کے خلاف ہے۔‘

فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ صرف عوامی مفاد کے لیے ہے۔‘

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’جج اور بیوروکریٹس اصل سٹیک ہولڈر یعنی عوام کی خدمت کے لیے ہیں۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاوسنگ اتھارٹی آئین کے خلاف کوئی سکیم نہیں بنا سکتی۔‘

عدالت نے سیکرٹری ہاوسنگ کو دو ہفتے میں فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’توقع ہے کابینہ اور وزیراعظم چاروں سیکٹرز سے متعلق مفاد عامہ کے تحت پالیسی بنائیں گے۔‘

جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی کی سکیم پر انٹرا اپیل اور رٹ پٹیشنز پر 64 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے سنایا۔

 فیصلے میں کہا گیا کہ ’اِن سیکٹرز میں ایک لاکھ 35 ہزار سرکاری ملازمین کی درخواستوں کا اندراج ہوا۔ ان میں سے ایک لاکھ 26 ہزار ملازمین کو پلاٹ نہیں ملے لیکن باقی اعلیٰ سرکاری افسران، بیوروکریٹس اور ججز کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے پلاٹ مختص کیے گئے۔‘

 تحریری فیصلے میں سوال کیا گیا کہ ’فیڈرل ایمپلائی ہاؤسنگ سوسائٹی نے عدالت کو یہ نہیں بتایا کہ گزشتہ برس 17 اگست کو ہونے والی قرعہ اندازی میں جن افراد کی درخواستیں قرعہ اندازی میں چُنی گئیں اور پلاٹ مختص ہوئے اس میں شفافیت کیسے رکھی گئی؟‘

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’حیران کُن طور پر کامیاب امیدواروں میں صرف اشرافیہ ہی تھے جن میں اعلیٰ عدلیہ کے موجودہ اور ریٹائرڈ ججز بھی شامل ہیں۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی کی سکیم عوامی مفاد کے بجائے عوام کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘

عدالت نے مزید کہا کہ ’وفاقی حکومت کے ملازمین یا ججز کا فرض ہے کہ وہ حقیقی سٹیک ہولڈرز عوام کی خدمت کریں۔ پبلک آفس ہولڈرز عوام کی فلاح و بہبود کے خلاف اپنے لیے مفاد حاصل نہیں کر سکتے۔'

فیصلے میں کہا گیا کہ ’ہاؤسنگ سکیم اور اس پر نظر ثانی شدہ پالیسی مفاد عامہ کے خلاف ہے۔ ہاؤسنگ سکیم سے لوگوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی، اشرافیہ کی گرفت اور مفادات کے ٹکراؤ کی علامات واضح ہیں۔‘

فیصلے کے مطابق ’کم سن گھریلو ملازمہ پرتشدد کیس میں سزا یافتہ جج راجہ خرم بھی پلاٹ لینے والوں میں شامل ہے۔ رشوت وصولی کے اعتراف پر برطرف جج بھی پلاٹس لینے والوں میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کا ہر جج پلاٹس سے مستفید ہونے والوں میں شامل ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ نااہل اور خراب ساکھ پر زیر نگرانی رکھے گئے جج بھی پلاٹس لینے والوں میں شامل ہیں۔‘

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’لگتا ہے وزیراعظم اور کابینہ کو اس کے اثرات سے اندھیرے میں رکھا گیا۔ اہم ترین پہلو یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے مفادات کے ٹکراو کو نظر انداز کر دیا۔ ایلیٹ کا خزانے اور عوام کو نقصان پہنچا کرامیر ہونا آئینی معاشرے میں ناقابل تصور ہے۔ نظرثانی شدہ پالیسی میں وکلا اور صحافیوں کو نکال دیا جانا بھی قابل غور پہلو ہے۔‘

فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ نے کبھی پلاٹس پالیسی میں شمولیت کی درخواست ہی نہیں دی۔ اس سلسلے میں فیڈرل ایمپلائی ہاؤسنگ سوسائٹی نے کوئی وضاحت نہیں دی کہ بغیر درخواست کے پالیسی میں کیوں شامل کیا گیا۔‘

واضح رہے کہ انٹرا کورٹ اپیلوں پر گذشتہ برس 22 نومبر میں فیصلہ مخفوظ ہوا تھا۔ اس کے بعد ہاؤسنگ سوسائٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ 23 نومبر کو ایک سماعت موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہوئی تھی جسے عدالت نے یہ کہہ کر نمٹا دیا تھا کہ ’ازخود نوٹس کا اختیار ہائی کورٹ نے استعمال کیا ہے درخواست گزار انہی سے رجوع کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نومبر میں فیصلہ مخفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یا تو یہ پلاٹ مارکیٹ ریٹ پر دیں دوسری صورت میں تو یہ باقی شہریوں سے زیادتی ہے۔ تین ارب روپیہ سرکاری خزانے سے پرائیویٹ لوگوں کی جیبوں میں چلا جائے گا۔ نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین تو زیادہ ضرورت مند ہیں ان کو کیوں نہ پلاٹ دیے جائیں؟‘

فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے مزید کہا گیا تھا کہ ’ایک بات واضح کر لیں، ججز اور بیوروکریٹ عوام کی خدمت کیلئے موجود ہیں۔ ہم عوام کو جواب دہ ہیں اور انہی کے پیسوں پر یہاں بیٹھے ہیں۔ جب پلاٹ الاٹمنٹ وفاقی حکومت کے ملازمین تک مختص کر دی گئی ہے، پھر ججز بھی اس میں نہیں ہیں۔ صرف افسران کی بجائے تمام سرکاری ملازمین کو ملنا چاہیے۔‘

پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے سیاق و سباق ؟

واضح رہے کہ گذشتہ برس اگست میں فیڈرل ایمپلائز ہاوسنگ سوسائٹی نے اسلام آباد کے سیکٹرز ایف 14 اور 15 میں پلاٹوں کی قرعہ اندازی کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق 4700 پلاٹوں میں سپریم کورٹ کے ججوں، جس میں سابق چیف جسٹس گلزار احمد، چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل اور جسٹس اعجاز الحسن کا نام بھی شامل ہے۔

 اس کے علاوہ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، سابق جج امیر ہانی مسلم، جسٹس (ر) اعجاز افضل خان، جسٹس (ر) مشیر عالم اور جسٹس (ر) منظور احمد ملک کے نام بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سزا یافتہ جج بھی پلاٹ لینے والوں میں شامل تھے۔

 اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے علاوہ سابق چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد ارشاد، سابق چیئرمین این ایچ اے شاہد اشرف تارڑ اور کئی وفاقی سیکرٹریز کے بھی پلاٹ نکلے۔

جبکہ ماضی میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس سکیم کے دونوں سرکاری پلاٹ لینے سے منع کر دیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی اس سکیم میں حصہ نہیں لیا اس کے علاوہ پلاٹ نہ لینے والے سپریم کورٹ کے ججوں میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی کے نام بھی شامل ہیں۔

آئین میں ججوں کے لیے کیا سہولیات ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق سرکاری زمینیں اعلیٰ افسران کو کسی قانون کے تحت نہیں بلکہ ایگزیکٹو کی پالیسیوں کے تحت دی جاتی رہی ہیں۔

 پرویز مشرف دور میں بنائی گئی پالیسی کے تحت سپریم کورٹ کا جج اسلام آباد میں دو رہائشی پلاٹس حاصل کرنے کا حق دار ہے جبکہ ہائی کورٹ کے جج کیلئے ایک پلاٹ ہے۔ لیکن آئین میں ججوں کے لیے صرف تنخواہ، پنشن اور سہولتوں کی بات کی گئی ہے۔

سال 2020 میں جسٹس قاضی فائز عیسی پلاٹوں سے متعلق کیس کے فیصلے میں کہہ چکے ہیں کہ ’اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کوئی بھی رہائشی پلاٹ یا زرعی زمین لینے کے حق دار نہیں ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان