نئی تحقیق میں انسانی خون میں پلاسٹک کی موجودگی کی تصدیق

نیدرلینڈز کی یونیورسٹی میں ہونے والی اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میں انسانی خون میں پلاسٹک کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے، جسے سائنس دان ’تشویش ناک‘ قرار دے رہے ہیں۔

فرانس میں ایک خون عطیہ کرنے کی مہم کے دوران 21دسمبر 2017 کو ایک نرس خون کا نمانہ اٹھائے۔  ایک نئی تحقیق میں انسانی خون میں مائیکرو پلاسٹک پائے گئے ہیں(اے ایف پی)

ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی خون میں پلاسٹک کی موجودگی کا پتہ لگانے والی دنیا کی پہلی تحقیق کے دوران ٹیسٹ کیے گئے افراد میں سے 77 فیصد میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ہیں۔ 

عام طور پر مشروبات کی بوتلوں، کھانے کی پیکنگ اور کپڑوں میں استعمال ہونے والی پی ای ٹی پلاسٹک انسانی خون میں سب سے غالب مقدار میں پائی گئی۔

تحقیق کے مصنفین نے کہا کہ پلاسٹک کے ذرات کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ہوا کے ذریعے بھی انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔

نیدرلینڈز کی ورجے یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم میں ایکو ٹوکسکولوجی اور پانی کے معیار اور صحت کے پروفیسر ڈک ویتھاک نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ نتائج ’یقینی طور پر تشویشناک ہیں کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ بظاہر اس قدر پلاسٹک کھا یا سانس لیتے ہوئے جسم میں داخل کر رہے ہیں کہ خون میں پایا جانا شروع ہوگیا ہے۔‘

پلاسٹک کی خون میں موجودگی کے نقصان کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا: ’اس طرح کے ذرات دائمی سوزش کا سبب بن سکتے ہیں۔‘

اس تحقیق کے دوران ٹیم نے 22 افراد کے خون کو نمونوں کا پانچ قسم کے پلاسٹک کی موجودگی کے لیے تجربہ کیا۔ پلاسٹک کی ان اقسام میں پولی متھائل میتھا کریلیٹ (PMMA)، پولی پروپیلین (PP)، پولی سٹیرین (PS)، پولی تھیلین (PE) اور پولی تھیلین ٹیریفتھلیٹ (PET) شامل تھی۔

نتائج سے پتہ چلا کہ 22 میں سے 17 ڈونرز کے خون میں قابل تعین مقدار میں پلاسٹک کے ذرات موجود تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولی تھیلین ٹیریفتھلیٹ (PET) کے بعد پولی سٹیرین (PS)، جس کا استعمال گھریلو مصنوعات کی بہت زیادہ اقسام بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، خون کے ٹیسٹ کیے گئے نمونوں میں سب سے زیادہ مقدار میں پایا جانے والا پلاسٹک تھا۔

خون میں پایا جانے والا تیسرا سب سے زیادہ پلاسٹک پولی تھیلین تھا۔ یہ ایک ایسا مواد ہے جو باقاعدگی سے پلاسٹک کیریئر بیگز کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔

سائنسدانوں نے کہا کہ خون کے ایک نمونے میں پلاسٹک کی تین مختلف اقسام کی پیمائش کی گئی۔

ٹیسٹ میں شامل 50 فیصد کے خون میں پی ای ٹی پایا گیا جب کہ پولی سٹیرین 36 فیصد افراد میں موجود تھا۔

پروفیسر ویتھاک نے کہا: ’اس تحقیق سے پتہ چلا کہ ٹیسٹ کیے گئے 10 میں سے تقریباً آٹھ لوگوں کے خون میں پلاسٹک کے ذرات موجود تھے لیکن اس سے ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی کی محفوظ یا غیر محفوظ سطح کیا ہے۔‘

ان کے بقول: ’یہ سطح کتنی زیادہ ہے؟ ہمیں فوری طور پر مزید تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس بارے میں جان سکیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جیسا کہ پلاسٹک کے ذرات سے ہمارا سامنا ہونے میں اضافہ ہو رہا ہے، ہمیں یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ یہ ہمارے جسم کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔‘

پروفیسر ویتھاک نے کہا کہ انہوں نے ان تحقیقی منصوبوں کے نتائج دیکھ کر اپنے پلاسٹک کے استعمال کو کم کیا ہے۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جتنا ہو سکے میرا خاندان سنگل یوز پلاسٹک کے استعمال سے گریز کرنے کی کوشش کرتا ہے خاص طور پر ایسے پلاسٹ جن میں کھانا یا مشروبات پیک کیے گئے ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’گھر کو اچھی طرح سے ہوادار رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ مائیکرو پلاسٹک کی تعداد باہر کے مقابلے گھر کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے۔ میں پلاسٹک کے ذرات کے جمع ہونے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اپنے کھانے اور مشروبات کو بھی ڈھانپ کر رکھتا ہوں۔ پلاسٹک کے ذرات کا کم سے کم سامنا کرنے کے لیے آپ مزید کئی کام کر سکتے ہیں۔‘

یہ مطالعہ کامن سیز (Common Seas) کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔ کامن سیز ایک پریشر گروپ ہے جو دنیا کے سمندروں میں پلاسٹک کے فضلے کی بہت زیادہ مقدار کو ختم کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔

تنظیم کے چیف ایگزیکٹو جو روئل نے کہا: ’یہ نتائج انتہائی تشویشناک ہیں۔ ہم پہلے ہی پلاسٹک میں کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں اور سانس لے رہے ہیں۔ یہ (پلاسٹک) سمندر کی سب سے گہری جگہوں اور ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر بھی موجود ہے۔ اور اس سب کے باوجود پلاسٹک کی پیداوار 2040 تک دوگنی ہو جائے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ یہ سارا پلاسٹک ہمارے جسم کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ اسی لیے ہم دنیا بھر کے کاروبار، حکومت اور مخیر حضرات سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ’نیشنل پلاسٹک ہیلتھ امپیکٹ ریسرچ فنڈ‘ کے ذریعے پلاسٹک کے صحت پر اثرات کے بارے میں ہماری معلومات کو واضح کرنے اور اس کی فوری اور مزید تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کریں۔‘

یہ تحقیق سائنسی جریدے ’اینوارمنٹ انٹرنیشنل‘ میں شائع ہوئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت