سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہفتے کو یوکرین کے اولیکساندر یوسک اور برطانوی فائٹر انتھونی جوشوا کے درمیان باکسنگ کی تاریخ کے سب سے بڑے میچوں میں سے ایک میں پہلے کافی جوش و خروش موجود تھا۔
ایسے پرجوش مناظر سعودی عرب میں بیشتر دیکھنے کو ملتے ہیں کیوں کہ سعودی عرب، ولی عہد کے ویژن 2030 کے تحت اب زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کر رہا ہے۔
گذشتہ سال ستمبر میں یوسک نے باکسنگ کی دنیا کو اس وقت چونکا دیا جب انہوں نے اپنے حریف جوشوا کو پہلے ہی باوٴٹ میں پیچھے چھوڑ دیا اور چوتھا ہیوی ویٹ ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے یہ شیڈول میچ ان کے آبائی ملک میں نہیں ہو سکا اور اب یہ مقابلہ جدہ میں منعقد ہو رہا ہے۔
2016 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ویژن 2030 پیش کیا تھا جس کے اہداف میں سے ایک سعودی عرب کو عالمی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں کا مرکز بنانا تھا۔ یہ ویژن سعودی شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے گا اور مجموعی معیار زندگی کو بہتر بنائے گا۔
اس ویژن کے تحت صرف چند ہی سالوں میں سعودی عرب دنیا میں کھیلوں کے سب سے بڑے مقابلوں کی میزبانی کرتے ہوئے سب سے آگے نکل گیا ہے جس سے ملک میں سیاحت، تفریح اور روزگار کو فروغ دیا اور قومی شناخت کو بھی مضبوط کیا ہے۔
سعودی عرب خاص طور پر 2018 سے ای ویزا کے اجرا کے ساتھ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ توقع ہے کہ وہ 2030 تک 10 کروڑ سیاحوں کی میزبانی کرے گا۔ ملک میں نئے پرتعیش ریزورٹس اور ایک مصروف تفریحی کیلنڈر تیار کیے گئے ہیں۔
کھیلوں کے بڑے ایونٹس کی میزبانی نے سعودی عرب میں ہر مرحلے پر شراکت داری، سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں جب کہ وسیع تر بین الاقوامی تماشائیوں کی آمد سے سعودی عرب کی اقتصادی صلاحیت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
فارمولا ریس کے ہموار ٹریکس سے لے کر ڈاکار صحرائی دوڑ کے دشوار گزار راستوں تک اور کنگ عبداللہ اکنامک سٹی میں رائل گرینز گالف اینڈ کنٹری کلب سے جدہ کے کنگ عبداللہ سپورٹس سٹی تک سعودی عرب کے کھیلوں اور تفریحی انفراسٹرکچر میں بہتری آئی ہے۔
2034 کے ایشین گیمز کی میزبانی کے لیے سعودی عرب کی کامیابی اس شعبے کی طویل مدتی سٹریٹجک رفتار کا منہ بولتا ثبوت ہے جو اس کی مجموعی قومی ترقی میں جڑی ہوئی ہے۔
2018 سے سعودی عرب میں کھیلوں کے بڑے ایونٹس، ٹورنامنٹس، اور چیمپیئن شپس منعقد کیے جا رہے ہیں۔
رواں سال برطانیہ کے کالم سمتھ نے جدہ میں اپنے ہم وطن جارج گروز کو شکست دے کر ڈبلیو بی اے سپر مڈل ویٹ ٹائٹل اور ورلڈ باکسنگ سپر سیریز کا ٹائٹل جیتا تھا۔
2018 میں سعودی ریاست کے پہلے دارالحکومت اور تاریخی قصبے الدریہ کے میں ای پریکس چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تب سے سعودی عرب نے سپر کوپا اٹالیانا، سپر کوپا ڈی سپان، گولف انٹرنیشنل اور 20 ملین ڈالر کے ساتھ دنیا کی سب سے مہنگی گھوڑوں کی دوڑ یعنی سعودی کپ کی میزبانی کی ہے۔
سعودی عرب نے اب تک پیراشوٹنگ کی انٹرنیشنل چیمپیئن شپ، جوشوا اور اینڈی روئز جونیئر کے درمیان ’کلیش آن دی ڈینس‘، دریہ ٹینس کپ، اور بیٹل آف دی چیمپئنز بی ایم ایکس اور سکیٹ بورڈنگ ٹورنامنٹ کی میزبانی بھی کی ہے۔
اگرچہ سعودی عرب کے تفریحی انقلاب کو 2020 میں کرونا وبا سے دھچکا لگا جس میں کئی تقریبات معطل، کھیلوں اور تفریحی مقامات کی بندش اور بین الاقوامی سفر پر کئی مہینوں تک پابندی لگی رہی تاہم تفریحی کیلنڈر نے جلد ہی دوبارہ دھماکے دار انٹری کی ہے۔
2021 میں سعودی عرب نے مملکت کی سالگرہ کے موقع پر سعودی عربین گراں پری منعقد کرائی جس سے اس نے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کے لیے ایک اہم مقام کے طور پر خود کو منوایا ہے۔
صرف آٹھ ماہ میں بنایا گیا جدہ کا تیز رفتار سرکٹ اب تک تعمیر ہونے والا تیز ترین فارمولا ون ٹریک بن گیا۔
مملکت نے اب 2026 میں اے ایف سی ویمنز ایشین کپ اور 2029 میں سعودی عرب کے زیر تعمیر نوم میگاسٹی نیوم میں ایشین ونٹر گیمز کی میزبانی پر اپنی نگاہیں مرکوز کر رکھی ہیں۔
’ارنسٹ اینڈ ینگ‘ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کے مطابق سعودی عرب میں کھیلوں کی صنعت کی مالیت آٹھ فیصد سالانہ بڑھ رہی ہے جو 2018 میں 2.1 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2024 تک 3.3 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
قومی جی ڈی پی میں کھیل کا حصہ 2016 میں 2.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2019 میں 6.9 ارب ڈالر ہو گیا کیونکہ سعودی عرب میں بین الاقوامی ایونٹس کی تعداد 2018 میں نو سے دگنی ہو کر 2019 میں 19 ہو گئی۔
یقیناً معاشی منافع ہی کامیابی کا واحد مقصد نہیں ہیں کیوں کہ سعودی قیادت اپنے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے بھی یہ اقدام کر رہی ہے جنہوں نے اہم فتوحات حاصل کی ہیں جس پر پوری مملکت بجا طور پر فخر محسوس کر سکتی ہے۔
گذشتہ سال سعودی عرب کے طارق حمدی نے ٹوکیو 2020 اولمپکس میں کراٹے میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ اس سال کے شروع میں فائیق عبدی بیجنگ میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپکس میں شرکت کرنے والے پہلے سعودی کھلاڑی بن گئے۔
2018 میں روس میں ہونے والے اپنے پانچویں فیفا ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد سعودی قومی فٹبال ٹیم نے اس سال مارچ میں رواں سیزن کے فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کھیلوں کی تفریح کی ترقی کا ایک اور مثبت اثر سعودی آبادی میں صحت اور تندرستی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہے۔
سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی برائے شماریات کے ایک نئے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک بھر میں اب 48.2 فیصد لوگ ہفتے میں کم از کم 30 منٹ تک جسمانی اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں وقت گزارتے ہیں۔
یہ وژن 2030 کے معیار زندگی کے مقاصد کے مطابق ایک صحت مند، متحرک معاشرے کی تشکیل میں ایک اہم سنگ میل کو ظاہر کرتا ہے۔
وژن 2030 کے اصلاحاتی ایجنڈے کا ایک اور ستون خواتین کے کردار کو تبدیل کرنا ہے۔ سعودی عرب نے کھیلوں میں خواتین کو شامل کرنے کے لیے کئی حکمت عملی تیار کی ہے جن میں 2020 میں 24 ٹیموں پر مشتمل خواتین کی فٹ بال لیگ کا قیام اور اگلے سال خواتین کی پہلی علاقائی فٹ بال لیگ کا آغاز شامل ہے۔
تجربہ کار جرمن کوچ مونیکا سٹاب کی بطور ٹرینر کوچ تقرری سے سعودی خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کو فروغ ملا ہے۔
سعودی وزارت کھیل کے مطابق درحقیقت 2015 سے اب تک کھیلوں میں خواتین کی شرکت میں تقریباً 150 فیصد اضافہ ہوا ہے۔