سوات وین حملہ دہشت گردی نہیں، غیرت کے نام پر قتل تھا: آئی جی

آئی جی خیبرپختونخوا پولیس معظم جاہ انصاری کے مطابق ملزمان قتل کے بعد مقتول ڈرائیور کے جنازے میں بھی شریک ہوئے اور انہوں نے مظاہروں میں بھی شرکت کی تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ وہ بھی سوگواران میں شامل ہیں۔

وہ سکول وین جس پر سوات کی تحصیل چار باغ میں حملہ کیا گیا (عزیز بونیری)

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل چار باغ میں ایک سکول وین پر حملے اور ڈرائیور کی ہلاکت کے معاملے پر صوبے کے پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ سوزوکی وین پر حملہ دہشت گردی نہیں بلکہ ’غیرت کے نام پر قتل‘ کا واقعہ تھا۔

جمعرات کو سوات میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس معظم جاہ انصاری نے بتایا کہ ’ابتدا میں پولیس کے پاس ثبوت نہیں تھے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہے اور اسی وجہ سے ڈرائیور کے لواحقین کے لیے شہدا پیکج کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔‘

تاہم معظم جاہ کے مطابق ’اس واقعے کا مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلے گا کیونکہ اس واقعے سے عوام میں عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوگئی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس واقعے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔‘

معظم جاہ نے بتایا: ’سوات کے حالات آئندہ دو تین مہینوں میں مزید بہتر ہوجائیں گے اور تمام سیاحوں کو ہماری طرف سے یہی پیغام ہے کہ سوات میں امن ہے اور وہ بلا کسی خوف کے سوات کا رخ کر سکتے ہیں۔‘

پولیس نے واقعے کے بعد بھی بتایا تھا کہ حملے میں ٹارگٹ سکول کے بچے نہیں بلکہ وین ڈرایئور تھا لیکن عوام کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ واقعے میں ملوث ملزمان اور مقتول رشتہ دار ہیں اور ان کا آپس میں سالے بہنوئی کا تعلق ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملزمان قتل کے بعد مقتول ڈرائیور کے جنازے میں بھی شریک ہوئے اور انہوں نے مظاہروں میں بھی شرکت کی تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ وہ بھی سوگواران میں شامل ہیں۔

معظم جاہ نے بتایا: ’واقعے میں ملوث ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک ملزم واردات کے بعد دبئی فرار ہوگیا لیکن اسے سفارتی ذرائع سے گرفتار کرکے سوات لائیں گے جبکہ تیسرے ملزم کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔‘

وین حملہ کب اور کیسے کیا گیا؟

ضلع سوات کی تحصیل چار باغ میں سکول وین پر حملے کا واقعہ 11 اکتوبر کو پیش آیا تھا جب ایک وین میں دو نجی سکولوں کے بچے سکول جارہے تھے۔ اس حملے میں سکول وین کے ڈرایئور ہلاک جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوات کے چارباغ پولیس سٹیشن کے ایک اہلکار وحید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ نجی سکول وین پر گلی باغ کے علاقے میں نا معلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کی تھی۔

پولیس کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ’سوزوکی میں سکول کے تقریباً 10 سے 11 بچے موجود تھے، جائے وقوعہ پہنچنے پر پہلے سے تاک میں بیٹھے نامعلوم شخص نےسوزوکی ڈرائیور پر فائرنگ کی، فائرنگ کے نتیجے میں ڈرائیور ہلاک ہوگیا جبکہ فرنٹ سیٹ پر موجود بچوں میں سے ایک فائرنگ کے زد میں آکر زخمی ہوا۔‘

پولیس کا کہنا تھا کہ ’نامعلوم شخص کا ٹارگٹ سوزوکی ڈرائیور تھا۔ سوشل میڈیا پر وقوعہ کو سکول کے بچوں کو ٹارگٹ کرنے کا رنگ دیا جا رہا ہے جو غلط ہے۔‘

اس حملے کے خلاف بعد میں سوات میں مقتول ڈرائیور کی لاش کو تقریباً دو دن سڑک پر رکھ کر دھرنا دیا گیا تھا اور علاقے کے لوگوں کا مطالبہ تھا کہ حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے۔

اس حملے کو بین الاقوامی سطح پر بھی کوریج ملی تھی جبکہ ملالہ یوسفزئی نے پاکستان میں اپنے حالیہ دورے کے دوران بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

سکول وین پر حملے کو ملالہ یوسفزئی پر حملے کی طرح دیکھا جا رہا تھا، جس کے بعد عوام میں کافی خوف پھیل گیا تھا۔ تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے سکول وین کے حالیہ حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان