فیصل آباد پاور لوم ورکرز کے لیے 2022 ’برا ترین‘ سال

لیبر قومی موومنٹ کے چیئرمین بابالطیف انصاری کا کہنا ہے کہ ’دسمبر کے مہینے میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ مزدور بیروزگاری کے سبب اپنےگھروں کو واپس  لوٹ چکے ہے۔‘

فیصل آباد کا علاقہ غلام محمد آباد پاور لوم انڈسٹری کا ایک بڑا مرکز ہے جہاں پاور لوم کی سینکڑوں چھوٹی اور درمیانے درجے کی فیکٹریاں موجود ہیں۔

تاہم اب ان میں سے زیادہ تر فیکٹریوں کے دروازوں پر تالے لگے ہوئے ہیں اور بند پڑی پاور لومز پر دھول اور مٹی جم چکی ہے۔

زیادہ تر فیکٹریوں میں کام  بند ہونے کی وجہ سے یہاں پاور لومز چلنے سے پیدا ہونے والی  مخصوص آواز کا شور مدھم پڑتا جا رہا ہے جبکہ اس صنعتی مرکز سے متصل کباڑ مارکیٹ میں لوہے کے بھاو بکنے والی پاور لومز کے ڈھیر بلند ہوتے جا رہے ہیں۔

اس کی بڑی وجہ بجلی اور سوتر کی قیمتوں میں گذشتہ کئی ماہ سے جاری مسلسل اضافہ ہے جس نے اس سیکٹر سے وابستہ ہر شخص کو مالی مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔

پاور لوم ورکر اس بحران کا مقابلہ کیسے کر رہے ہیں؟

قادر آباد چوک کے قریب واقع ایک پاور لوم فیکٹری میں کام کرنے والے ورکر ندیم احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاور لوم سیکٹر گذشتہ کئی سال سے بحران کا شکار ہے لیکن 2022 کا سال ان کے لیے بہت ہی برا ثابت ہوا ہے۔‘

’ہفتے میں دو تین چھٹیاں ہوتی ہیں کبھی راج مستری کے ساتھ دیہاڑی لگا لیتے ہیں کبھی سبزی منڈی چلے جاتے ہیں کیونکہ بچوں کا پیٹ تو پالنا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اخراجات میں بچت کی خاطر وہ ایک وقت کا کھانا نہیں کھاتے ہیں۔

ایک اور پاور لوم ورکر شمشاد علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’مالکان بھی موجودہ حالات سے تنگ ہیں اور وہ فیکٹریاں بند کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مزدوروں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔‘

’مالکان سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے  ہیں بجلی کے بل بہت زیادہ آ رہے ہیں، دھاگہ بہت مہنگا ہو گیا ہے، کپڑا اس ریٹ پر نہیں فروخت ہو رہا ہے۔ آپ چکر لگا لیں چند فیکٹریاں چل رہی ہیں۔‘

شمشاد علی کے مطابق ’مزدور اپنے روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے  گھر کے برتن بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔‘

پاور لوم فیکٹریوں میں ٹھیکے پر بھرتی کا کام کرنے والے بابر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سےگفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تقربیا 40 سال سے یہ کام کر رہے ہیں لیکن انہوں نے آج تک اس طرح کا بحران نہیں دیکھا ہے۔

’اتنے برے حالات ہو گئے ہیں کہ مزدور آدمی تو رو رہا ہے اس وقت، کرائے دار سے کرایہ ادا نہیں کیا جا رہا، بجلی کے بل دوگنا ہو گئے ہیں جنہیں ادا کرنے کے لیے اپنی کوئی نہ کوئی چیز فروخت کرنی پڑتی ہے اور پھر بل ادا ہوتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس بحران کی وجہ سے پاور لوم مالکان کا بھی برا حال ہے اور معاملات ان کے بس سے باہر ہو چکے ہیں۔

بابر علی نے بتایا کہ ’اس علاقے میں 40 فیصد پاور لومز چل رہی ہیں اور 60 فیصد بند پڑی ہیں۔‘

’پاور لومز ٹوٹ رہی ہیں، لوہے کے ریٹ پر اسے توڑ کر بیچ رہے ہیں۔ جب مالک کا برا حال ہو جائے گا توا س نے پاور لوم توڑ کر ہی بیچنی ہے، کوئی بازار سے کتنا قرض لے سکتا ہے، کہاں سے لائے گا؟‘

پاور لوم مالکان کا موقف کیا ہے؟

ایک بند پاور لوم فیکٹری  کے مالک محمد رفیع نےانڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاور لوم سیکٹر کے  لیے سال 2022 انتہائی برا ثابت ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی پاور لومز فروخت کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں مناسب خریدار نہیں مل رہا ہے۔

’ایک تو بجلی کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے، دوسرا دھاگہ پہلے ادھار مل جاتا تھا لیکن اب وہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے، نقد ملتا ہے لیکن پھر کپڑا فروخت نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’مارکیٹ میں کپڑے کی ڈیمانڈ نہ ہونے اور لاگت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے زیادہ تر فیکٹریاں بند ہیں یا جزوی طور پر چل رہی ہیں۔‘

’کم ازکم 30 ورکر اس فیکٹری میں کام کرتے ہیں جو پچھلے تین ماہ سے بیروزگار ہیں۔‘

مزدور تنظیمیں اور پاور لوم مالکان کی ایسوسی ایشن کیا کر رہی ہے؟

پاور لوم ورکرز کی نمائندہ تنظیم لیبر قومی موومنٹ کے چیئرمین بابالطیف انصاری نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’دسمبر کے مہینے میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ مزدور بیروزگاری کے سبب اپنےگھروں کو واپس  لوٹ چکے ہے۔‘

’دوسرے شہروں اور نواحی دیہات سے پاور لوم فیکٹریوں میں کام کے لیےآنے والے مزدوروں کا یہاں رہنا ناممکن ہو گیا ہےجب کام ہی نہیں ہے تو پھر وہ یہاں رہ کر کیا کریں گے؟‘

کونسل آف پاور لومز اونرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین وحید خالق رامے نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو  کے ساتھ فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’جنوری میں بجلی کا ریٹ 30 روپے فی یونٹ تھا جو دسمبر میں بڑھ کر 55 روپے یونٹ ہو چکا ہے۔‘

’ڈالر کی قدر میں 2022 کے دوران 55 روپے کا اضافہ ہوا ہے ۔ کپاس اور سوتر کی قیمت میں بھی تقریبا 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پیداوار کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے پاور لوم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے لیکن پنجاب اور وفاق حکومت نے اس بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔‘

’فیصل آباد میں چند ماہ پہلے ہزاروں پاور لوم مالکان نے سڑکوں پر آ کر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی، اس لیے اب پاور لوم مالکان بھی خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت