خواتین کو ’گھروں تک محدود‘ رکھنا صرف پشتون روایت ہے؟

اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب منیر اکرم نے ایک تقریر میں افغان خواتین پر پابندیوں کا تعلق مذہب سے کم اور پشتون روایات سے زیادہ قرار دیا، جس کے باعث ان پر شدید تنقید ہوئی۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم 16 اگست 2021 کو نیویارک میں اقوام متحدہ میں افغانستان سے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس کے باہر خطاب کر تے ہوئے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کو عالمی ادارے میں پشتون معاشرے میں خواتین کے حوالے سے گفتگو پر سوشل میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

منیر اکرم اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق میں پڑوسی ملک افغانستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں خواتین پر پابندیوں کا تعلق طالبان اور مذہب سے کم اور پشتون روایات سے زیادہ ہے

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پشتون روایات کے تحت پشتون معاشرے میں خواتین کی گھروں کی چار دیواری کے اندر رہنے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

منیر اکرم نے کہا: ’یہ پشتون روایات ہی ہیں جو ہزاروں سالوں سے چل رہی ہیں، اور خواتین کے حالات بدلنے میں بہت وقت لگے گا۔ ہم نے گذشتہ کئی سالوں میں دیکھا کہ سفارتی کوششیں اس مد میں کارآمد ثابت نہیں ہوئیں۔‘

پشتون معاشرے سے متعلق اس طرح خیالات کے اظہار پر مینر اکرم کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس پر انہوں نے گذشتہ روز ایک ٹویٹ کے ذریعے معذرت بھی کی ہے، اور وضاحت کی کہ ان کا مطلب پشتون خواتین کی دل آزاری بالکل بھی نہیں تھا۔

ہم نے اسی بیان کے تناظر میں چند ثقافتی ماہرین سے بات کر کے جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی خواتین کو گھروں تک محدود رکھنا پختون روایات کا حصہ ہے۔

ڈاکٹر قیصر خان ملاکنڈ یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی و لینگویسٹک کے پروفیسر ہیں، اور پشتون معاشرے میں خواتین کے کردار پر کئی تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عام طور پر دو مختلف چیزوں کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔

’ایک جنڈر سیگریگیشن یا صنفی علیحدگی اور دوسرا خواتین پر پابندیاں، جو دراصل طاقت کے ساتھ منسلک ہے۔‘ 

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پشتون معاشرے میں جسمانی طاقت کی وجہ سے مرد باہر کام کرتے تھے اور خواتین گھروں میں۔ ’لیکن بہت سے ایسی جگہیں ہیں، خصوصاً کھیت، جہاں مرد و زن اکٹھے کام کرتے ہیں۔ 

ان کے خیال میں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صنفی علیحدگی اور پابندیوں کی بات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ’یعنی ہمارے معاشرے میں عام خیال یہ ہے کہ مردوں اور خواتین کی ورک سپیسز (کام کرنے کی جگہیں) الگ الگ ہیں۔‘ 

ڈاکٹر قیصر کے خیال یہاں کے معاشرے کو مغربی چشمہ لگا کر دیکھنا غلط ہو گا۔ ’کیونکہ ہمارا معاشرہ مغربی معاشروں سے مختلف ہے، ہمارے ہاں مر دو خواتین کو سمجھا تو برابر جاتا ہے لیکن ان کے کام کے طریقے الگ الگ ہیں اور اسی کو صنفی علیحدگی کہا جاتا ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران فیمینزم کا کلچر شروع ہونے کے بعد اکثر ماہرین نے پشتون معاشرے کو مغرب کی عینک لگا کر دیکھنا شروع کیا، جس سے مسائل میں اضافہ ہوا۔  

ان کا کہنا تھا: ’مغربی ثقافت  اور اقدار الگ ہیں، جبکہ ہماری بالکل الگ اور مغربی اقدار کو یہاں لاگو کرنا مشکل ہو گا، کیونکہ ہمارے رہن سہن، پوشاک، خوراک اور بہت ساری دوسری چیزیں مغرب سے بالکل مختلف ہیں۔ 

ڈاکٹر قیصر پختون معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب خواتین مختلف شعبوں میں ملازمتیں تو کر رہی ہیں، لیکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کے لیے الگ ورک سپیس مہیا کی جائے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: ’تو اس میں پابندی کی بات نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک معاشرے کی ثقافت اور اقدار کو معیار بنا کر دوسرے کلچر کو اچھا یا برا نہیں سمجھا جاتا، بلکہ کلچر کا مستقل ہونا اور تبدیلی کی مزاحمت اسے برا بناتی ہیں۔

’پشتون کلچر ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ یہ ہمیشہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہا ہے۔‘ 

انہوں نے بتایا: ’غیرت کے نام پر قتل کی روایت پشتونوں کے علاوہ پاکستان کی دوسرے کئی قوموں میں بھی موجود ہے، تاہم اس کی پسندیدگی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ’اور اب غیرت کے نام پر قتل کے اکثر واقعات عدالت لے جائے جاتے ہیں، اور لوگ بدلہ لینے کے بجائے عدالت سے انصاف مانگتے ہیں۔‘

مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ تعلیم کے پروفیسر ڈاکٹر محمد سہیل نے پاکستانی سفیر کی جانب سے اقوام متحدہ کے سامنے افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کا جواز پیش کیے جانے کو افسوس نال قرار دیا۔

ڈاکٹر سہیل نے سوال اٹھایا کہ کیا افغانستان میں طالبان کے دور اقتدار سے پہلے خوایتن تعلیم حاصل نہیں کر رہی تھیں، اور موسیقی، تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں کام نہیں کر رہی تھیں۔

انہوں نے کہا: ’پشتون خوایتن کبھی بھی گھر میں نہیں بیٹھتیں، بلکہ 10ویں اور 13ویں صدی میں بھی پختون خواتین لکھاریوں کی تاریخ موجود ہے، جنہوں نے درس بھی دیا اور لکھا بھی۔‘

ڈاکٹر سہیل کا کہنا تھا کہ خواتین کے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی طویل فہرست ہے، جن میں کھیتوں میں کام، چشموں سے پانی لانا اور کئی دوسری چیزیں شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ خیبر پختوںخوا میں لاکھوں بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور یہاں پچیوں کی شرح خواندگی 42 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ’تو کیا یہاں یہ پشتون کلچر نہیں ہے؟‘ 

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ پختون معاشرے میں اب بچوں اور بچیوں کے درمیان امیتاز ختم ہو چکا ہے اور اس وقت بھی ہزاروں پختون بچیاں تاجکستان، قازقستان سمیت مختلف ممالک میں تعلیم کرنے کی خاطر گئی ہوئی ہیں۔ 

خوایتن کے حقوق کے کارکنان کا مؤقف

عورت فاونڈیشن گذشتہ تقریبا چار دہائیوں سے پاکستان سمیت خیبر پختونخوا میں عورتوں کی حقوق پر کام کرنے والا غیر سرکاری ادارہ ہے۔ 

عورت فاونڈیشن کی پروگرام منیجر صائمہ منیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان کے مندوب سے میرا سوال ہے کہ اقوام متحدہ میں وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں، پاکستان کی یا طالبان کی؟‘

انہوں نے بتایا کہ سفیر اپنے محدود تجربے، علم اور مخصوص ذہنیت کا اظہار طالبان کا نام لے کر کیوں کرتے ہیں جو نہایت نامناسب ہے۔

صائمہ منیر کا کہنا تھا: ’پاکستان کے سفیر معاشی مجبوریوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کو اپنا ترقی پسند روپ دکھانا چاہتے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اس ترقی پسند روپ کے ماسک کے نیچے ایک پدر شاہی سوچ موجود ہے، جو آج بھی عورتوں اور بچیوں کو گھر بٹھا کر ان کی نگہبانی کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے اور جس کی نظر میں عورت اور بچی ایک جنس ہے۔‘ 

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے جریدے ’جرنال پر کریٹیکل انکوائری‘ میں چھپنے والے ڈاکٹر قیصر کے مقالے میں پشتو کی لوک کہاںیوں میں خواتین کے کردار کا مطالعہ کیا گیا ہے۔

اس تحقیقی مقالے میں بھی صنفی علیحدگی اور خواتین پر پابندیوں پر بحث میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح خواتین کو ایک خاص کردار دے کر ان کو مردوں سے الگ دکھایے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 

تحقیقی مقالے کے تجزیے کے لیے 45 کہانیوں لی گئی ہیں، اور ان کہانیوں میں مقالے کے مطابق 63 فیصد کردار مردوں کے ہیں جبکہ صرف 30  فیصد خواتین کو دکھایا گیا۔

انہی کہانیوں میں مردوں کو زیادہ طاقتور اور گھر سے باہر دکھایا گیا ہے، جبکہ خواتین کو نسبتاً کمزور اور گھر تک محدود رکھا گیا۔

تاہم ڈاکٹر قیصر کے مطابق یہ مظہر صرف پشتون معاشرے تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ٹریںڈ پاکستان کے دیگر معاشروں میں بھی پایا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین