ترکی، شام زلزلہ:آٹھ ہزار سےزائد اموات، ’مدد کی آوازیں دم توڑنےلگیں‘

امدادی کارکن شدید سردی میں ملبے سے زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کے لیے کوشاں ہیں تاہم امدادی کاموں میں سست روی کے باعث کئی علاقوں میں شہریوں میں غصہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔

سات فروری 2023 کو ترکی میں آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے کے ایک دن بعد، جنوبی ترکی کے علاقے کہرامنمراس میں ایک خاتون تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر بیٹھی ہیں (اے ایف پی)

ترکی اور شام میں چھ فروری کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد آٹھ ہزار 700 سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس افسوس ناک واقعے کے دو روز بعد بھی امدادی کارکن بدھ کو علی الصبح  شدید سردی میں ملبے سے زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔

گذشتہ دو روز میں امدادی کارکنوں نے زلزلے کے 30 گھنٹے بعد بھی ملبے کے ڈھیروں سے کئی افراد کو نکالا ہے، جن میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔

دھات اور کنکریٹ کے غیرمتوازن ڈھیر کی وجہ سے ملبے سے لوگوں کی تلاش کی کوششیں خطرناک ہوگئی ہیں۔ ترکی کے کچھ حصوں میں امدادی کارکنوں برف باری میں بھی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تاہم ترک حکام کو شام اور بحیرہ روم کے درمیان واقع شدید متاثرہ علاقے حاطے کے رہائشیوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جن کا کہنا ہے کہ امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار ہیں۔

صوبے حاطے کے رہائشی عثمان کین تنیمیس، جن کے خاندان کے کئی افراد کو اب تک ملبے سے نہیں نکالا جا سکا تھا، نے اے پی سے گفتگو میں کہا: ’یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم جہنم میں ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم کسی بھی چیز کا جواب نہیں دے سکتے۔ مدد نہیں آ رہی، نہیں آ سکتی۔ ہم کسی تک پہنچ نہیں سکتے۔ ہر طرف تباہی ہے۔‘

نورگل اطے نے اے پی کو بتایا کہ وہ حاطے کے دارالحکومت انتاکیا میں منہدم ہونے والی ایک عمارت کے ملبے تلے اپنی والدہ کی آواز سن سکتی ہیں۔ لیکن ریسکیو اہلکاروں کے پاس انہیں بچانے کے لیے درکار بھاری سامان نہیں تھا۔

انہوں نے کہا: ’اگر ہم صرف کنکریٹ کی سلیب اٹھا سکتے، تو ہم ان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے، میری والدہ کی عمر 70 سال ہے، وہ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کر سکیں گی۔‘

پاکستان سمیت دنیا بھر سے امدادی ٹیمیں سرچ اور ریسکیو کارروائیوں کے لیے ترکی اور شام پہنچی ہیں، لیکن اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے نتیجے اور شورش کے شکار ملک شام کے بہت سے دور دراز علاقوں میں ملبے کے نیچے سے مدد کے لیے آنے والی آوازیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔

7.8 شدت کے زلزلے اور اس کے بعد آنے والے زوردار جھٹکوں نے جنوب مشرقی ترکی اور ہمسایہ ملک شام میں سینکڑوں کلومیٹر تک تباہی پھیلا دی ہے۔ زلزلے کے جھٹکوں سے ہزاروں عمارتیں منہدم ہوئیں جبکہ شام میں 12 سالہ خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کے بحران سے دوچار علاقہ مزید بدحال ہوچکا ہے۔

جنگ سے متاثرہ لاکھوں شامی پناہ گزین ترکی میں رہائش پذیر ہیں جبکہ شام میں متاثرہ علاقہ حکومت اور ملک کی آخری اپوزیشن کے زیر کنٹرول علاقے میں تقسیم ہے، جہاں لاکھوں افراد کا زندہ رہنے کے لیے انحصار انسانی امداد پر ہے۔

وائٹ ہیلمٹس کے نام سے مشہور رضاکاروں کو باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں شامی اور روسی فضائی حملوں میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے لوگوں کو بچانے کا برسوں کا تجربہ ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس زلزلے کے سامنے ان کی صلاحیتیں ناکافی ہیں۔

وائٹ ہیلمٹس کے نائب سربراہ منیر المصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وہ ایک وقت میں 30 مقامات پر موثر انداز میں جواب دینے میں کامیاب رہے لیکن اب انہیں 700 سے زائد افراد کی جانب سے مدد کے لیے کالز کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا، ’ٹیمیں ان مقامات پر موجود ہیں، لیکن دستیاب مشینری اور آلات کافی نہیں ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پہلے 72 گھنٹے کسی بھی امدادی کوشش کے لیے اہم تھے۔

شام کے ایک چھوٹے سے قصبت جندریس میں لوگوں کو ایک عمارت کے ملبے سے ایک نوزائیدہ بچہ روتا ہوا ملا، جس کی والدہ اسے جنم دے کر چل بسی۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی علاقے میں رسد کی فراہمی کے لیے تمام راستے تلاش کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا کہ باب الحوا سرحدی گزرگاہ کی طرف جانے والی جس سڑک سے اقوام متحدہ کی امداد کو باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں داخل ہونے کی اجازت ہے، اسے زلزلے سے نقصان پہنچا ہے۔

’دو کروڑ سے زائد لوگ متاثر‘

عالمی ادارہ صحت کے ایک سینیئر ایمرجنسی آفیسر ایڈیلہیڈ مارسچانگ نے کہا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقے میں دو کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ملک کی آٹھ کروڑ 50 لاکھ کی آبادی میں سے ایک کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے 10 صوبوں میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ترکی میں آٹھ ہزار سے زائد افراد کو ملبے سے نکالا جا چکا ہے جبکہ تین لاکھ 80 ہزار افراد نے سرکاری پناہ گاہوں یا ہوٹلوں میں پناہ لے رکھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترکی کے وزیر صحت فرحتین کوکا کا کہنا ہے کہ صرف صوبے حاطے میں ایک ہزار 647 افراد ہلاک ہوئے جو ترکی کے کسی بھی صوبے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ منگل کی شام تک کم از کم ایک ہزار 846 لوگوں کو بچایا جا چکا ہے۔ زلزلے کے نتیجے میں رن وے تباہ ہونے کے بعد حاطے کا ایئرپورٹ بند کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ترکی کے نائب صدر فوات اوکٹے نے کہا کہ زلزلے کے نتیجے میں کم از کم پانچ ہزار 894 افراد ہلاک اور34ہزار 810 زخمی ہوئے ہیں۔

شام کی وزارت صحت کے مطابق حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں ہلاکتوں کی تعداد 812 تک پہنچ گئی ہے جبکہ 1400 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔

 وائٹ ہیلمٹس کے مطابق باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی علاقے میں اب تک کم از کم 1020 افراد ہلاک اور 2300 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا