یورپ براستہ ’نوکنڈی روٹ‘

جب تک انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والوں کو سزائیں نہیں ملیں گی شاہدہ رضا جیسے سینکڑوں افراد اپنی جانیں گنواتے رہیں گے۔

غیر قانونی طور پر یورپ آنے والوں کو روکنے کی خاطر اٹلی کی سربراہی میں یورپی ممالک کے بحری آپریشن کے دوران ستمبر 2015 میں فرانسیسی بحریہ کا عملہ بحیرہ روم میں ایک کشتی کو روک رہا ہے (اے ایف پی/ میرین نیشنل/ سیباسٹین چنال)

پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور ڈیڑھ کروڑ افراد کو خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

90 لاکھ مزید پاکستانیوں کو غربت کا سامنا ہے جبکہ اب بھی ملک کی آبادی کا پانچواں حصہ غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔

مہنگائی اس وقت 30 فیصد سے زائد ہے اور امیر اور غریب کے درمیان کا فاصلہ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔

بوجھ غریبوں پر آ رہا ہے اور امیر ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں 17 لاکھ افراد نوکریاں کھو بیٹھے ہیں۔

یہ اعداد و شمار ورلڈ بینک، اقوام متحدہ اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے فراہم کردہ ہیں۔

اس صورت حال سے دو چار عوام ملک چھوڑ کر بیرون ملک کا سفر اختیار کر رہی ہے۔ بیرون ملک جانے کے لیے غیر قانونی طریقے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں، چاہے اس میں کتنا ہی خطرہ کیوں نہ ہو۔

ایسے میں شاہدہ رضا نے اپنے اور اپنے معذور بیٹے کے بہتر مستقبل کے لیے خطرہ مول لیا۔

وہ اس بدقسمت کشتی میں سوار تھیں جو چند روز قبل اٹلی میں حادثے کا شکار ہوئی اور اس میں شاہدہ کے ساتھ 20 دوسرے پاکستانی بہتر مستقبل کے خواب لیے جان گنوا بیٹھے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری کی شاہدہ نے 2003 سے کھیلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔

پاکستان آرمی کی جانب سے فٹ بال کھیلتی تھیں۔ ان کا شمار بلوچستان کے فٹ بال کے سب سے سینیئر کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔

بلوچستان سے ہاکی ٹیم کی نمائندگی کی اور فٹ بال کے میدان میں بھی نام پیدا کیا۔ انھوں نے ہاکی اور فٹ بال دونوں میدانوں میں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بلوچستان کی نمائندگی کی۔

تاہم 2022 میں ان کی نوکری گئی تو ان کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے زیادہ شاہدہ کو اپنے تین سالہ بیٹے کی فکر تھی جو چلنے پھرنے کے قابل نہیں۔ بچے کے معذور ہوتے ہی شوہر نے شاہدہ کو طلاق دے دی۔

آخر میں ماں نے وہی فیصلہ کیا جو ایسی ریاست کے باشندے کرتے ہیں جہاں پر آئین میں تو بہت کچھ لکھا ہوتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس۔

شاہدہ نے غیر قانونی طور پر اٹلی جانے کا فیصلہ کیا اور ان کے پلان کے مطابق نوکری ملتے ہی وہ اپنے بیٹے کو بھی ادھر بلا لیں گی اور اس کا اچھا علاج ہو جائے گا اور مستقبل سنور جائے گا۔

انسانی سمگلنگ کے لیے سمگلرز بلوچستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحد کا استعمال کرتے ہیں جو وسیع، کٹھن اور بہت کم آبادی والا راستہ ہے۔ اس راستے کو ’نوکنڈی روٹ‘ کہا جاتا ہے۔

سمگلنگ کے لیے تین زمینی راستے ہیں۔ ایک کراچی سے تفتان سرحد جہاں سے زاہدان اور پھر ترکی اور یورپ۔

دوسرا کراچی سے کیچ اور ایرانی سرحد۔ تیسرا راستہ بدنام زمانہ نوکنڈی روٹ جو کوئٹہ اور بلوچستان کے مغربی علاقوں سے ہوتا ہوا سرحدی قصبے تفتان اور مشکیل اور راجے پہنچتا ہے جو ایران اور وہاں سے ترکی جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مختصراً پاکستان اور ایران کی 900 کلومیٹر طویل سرحد پر کئی زمینی راستے ہیں جن کا استعمال انسانی سمگلر کرتے ہیں۔

سمندری راستے کے لیے انسانی سمگلرز گوادر کا استعمال کرتے ہیں۔ لوگوں کو پسنی، جیوانی، پشوکن یا سربندن میں کشتیوں پر سوار کراتے ہیں اور خلیج عمان سے ہوتے ہوئے ایران پہنچتے ہیں۔

فضائی راستے ان کے لیے ہیں جو یورپ پہنچنے کے لیے زیادہ رقم دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ وہ اصل پاسپورٹ اور ویزے استعمال کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فضائی راستوں کا ایک روٹ ہے کراچی سے دبئی اور پھر لیبیا، جہاں انسانی سمگلرز اپنا حصہ لے کر ان لوگوں کو چھوٹی کشتیوں یا ربڑ کی بنی کشتیوں پر بحیرہ روم میں چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ کشتیاں جن میں سوار افراد ناقص معیار کی لائف جیکٹس پہنے ہوتے ہیں، سمندری لہروں یا پھر اطالوی کوسٹ گارڈز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

اگرچہ یہ وہ غیر قانونی تارکین وطن ہوتے ہیں جو فضائی سفر کا خرچہ برداشت کر سکتے ہیں لیکن اسی روٹ پر سب سے بھیانک حادثات ہو چکے ہیں جن میں درجنوں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔

امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی 2021 کی رپورٹ میں پاکستان کو انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ کرنے پر درجہ دوم میں واچ لسٹ پر رکھا گیا تھا۔

اگلی رپورٹ یعنی 2022 میں حکومت پاکستان کے اقدامات کے باعث پاکستان کو درجہ دوم میں تو رکھا گیا ہے لیکن واچ لسٹ سے ہٹا دیا گیا۔

اگرچہ انسانی سمگلنگ پر کئی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں جن سے عالمی انسانی سمگلنگ اور اس کے پیچھے نیٹ ورک پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن یہ کتنی وسیع اور کتنی تشویش ناک حد تک پھیلی ہوئی ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

پاکستان کے تھنک ٹینک ریسرچ سوسائٹی فار انٹرنیشنل لا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی مرد اور خواتین کو خلیجی ممالک، ایران اور یونان سمگل کیا جاتا ہے۔

پاکستان انسانی سمگلنگ کے لیے ٹرانزٹ پوائنٹ ہے جہاں پر بنگلہ دیش، برما اور افغانستان جیسے ممالک سے لوگوں کو لایا جاتا ہے تاکہ ان کو غیر قانونی طور پر یورپ پہنچایا جا سکے۔

اسی لیے حکومت کو چاہیے کہ اس خطے میں انسانی سمگلنگ کے طریقوں کی نشاندہی کرے اور قوانین کو اس حوالے سے مزید سخت بنائے بلکہ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دلوانے کی بھرپور کوشش کرے۔

جب تک انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والوں کو سزائیں نہیں ملیں گی شاہدہ رضا جیسے سینکڑوں افراد اپنی جانیں گنواتے رہیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ