کشمیری نایاب ہرن ’ہانگل‘ کی گنتی کیسے کی جاتی ہے؟

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے نایاب لال ہرن ’ہانگل‘ کی تعداد کا تخمینہ لگانے کے لیے ہر دو برس بعد مہم شروع کی جاتی ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے نایاب لال ہرن ’ہانگل‘ کی تعداد کا تخمینہ لگانے کے لیے ہر دو برس بعد مہم شروع کی جاتی ہے۔

گنتی کرنے کی یہ مہم محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے منعقد کی جاتی ہے، جس میں محکمہ کے سینکڑوں ملازمین رضاکاروں کے ساتھ مل کر 155 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط داچھی گام پارک اور اس کے ملحقہ علاقوں میں کشمیری ہرن یعنی ہانگل کی تعداد یا آبادی کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔

رواں برس بھی داچھی گام نیشنل پارک اور ملحقہ علاقوں میں 15 سے 20 مارچ تک ایسی ہی مہم کا آغاز کیا گیا اور اس دوران داچھی گام پارک کو سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

وائلڈ لائف کے عہدیدار شاہد سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہانگل کی تعداد کا تخمینہ لگانے کے عمل کو بغیر کسی رکاوٹ کے ہموار طریقے سے انجام دینے کے لیے داچھی نیشنل پارک کو بند کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔

سروے سے قبل تمام شرکا کو ایک مختصر ہدایت دی جاتی ہے جس کے بعد یہ شرکا صبح سویرے سروے کا آغاز کرتے ہیں کیونکہ جانور چرنے کے لیے نیچے کی طرف آجاتے ہیں۔

شاہد سلطان بتاتے ہیں کہ ہرنوں کی گنتی کا یہ عمل کافی وقت سے چلا آ رہا ہے، جس میں یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان ہرنوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی آ رہی ہے۔

ان کے مطابق آخری بار یہ مہم 2021 میں چلائی گئی تھی، جس میں یہ پتہ چلا تھا کہ ہانگل کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ان کی تعداد 350 کے آس پاس تھی جو گذشتہ برسوں کے مقابلے میں بڑھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وادی کشمیر میں ہانگل کی آبادی میں تیزی سے کمی دیکھی گئی تھی۔ ایک وقت تھا جب کشمیر کے تمام پہاڑوں پر ہانگل بسیرہ کرتے تھے تاہم اب یہ صرف داچھی گام پارک میں موجود ہیں۔

محققین کے مطابق 1950 کی دہائی میں ہانگل کی آبادی پانچ ہزار کے قریب تھی لیکن 2017 میں اس کی تعداد 180 تک رہ گئی تھی۔

ہانگل کی آبادی میں مسلسل کمی کی سب سے بڑی وجہ غیر قانونی شکار بتایا جاتا ہے۔ ہرن کی ناف سے مشک نکالنے کے لیے اس کا شکار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ مشک سونے سے بھی زیادہ مہنگی فروخت ہوتی ہے اور اسے دنیا کی مہنگی ترین خوشبو (پرفیوم) میں استعمال کیا جاتا ہے۔

شاہد سلطان کے مطابق مہاراجہ کے دور میں لوگوں کو قانونی طریقے سے لائسنس جاری کیے جاتے تھے لیکن اب اس پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ غیر قانونی طریقے سے شکار کے لیے محکمے کی جانب سے طرح طرح کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

توقیر مقبول بٹ کا تعلق کھریو کے علاقے سے ہے اور انہوں نے پہلی مرتبہ اس مہم میں حصہ لیا۔

توقیر مقبول نے بتایا کہ ’میں نے اپنے بزرگوں سے بہت سی دلچسپ کہانیاں سنی ہیں اور میں اس جانور کو دیکھنا چاہتا تھا۔

’ماہرین کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ہانگل کو دیکھنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ایک نایاب جانور ہے اور اس طرح کے جانوروں کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی اسے دیکھ سکیں۔‘

پانپور کے کھریو اور خنموہ کے علاقے داچی گام نیشنل پارک کے ماحولیاتی حساس زون میں آتے ہیں اور یہاں سیمنٹ کی صنعتوں کے بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے بھی ہانگل کی آبادی پر کافی اثر پڑا ہے۔

سیمنٹ مینوفیکچرنگ کے لیے کان کنی کے عمل نے ہانگل کی آبادی کی نقل و حرکت کو متاثر کیا ہے۔

ماہر ماحولیات اور حکومتی تحفظاتی پالیسیوں کے ناقد ڈاکٹر شیخ غلام رسول کہتے ہیں کہ ہانگل کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں پر خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔

ان کا کہنا تھا: ’کھریو اور خنموہ میں ایک درجن سیمنٹ فیکٹریاں ہیں، جو داچھی گام نیشنل پارک کے ماحولیاتی حساس زون میں آتی ہیں۔ ان کارخانوں سے خارج ہونے والی دھول واضح طور پر ہانگل کی بقا کے لیے خطرہ ہے اور مائننگ آپریشنز ہانگل کی نقل حمل کو متاثر کر رہی ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات