’فوجی جوان کی طرح‘ ٹریک کی حفاظت کرنے والے ریلوے ’کی مین‘

ریلوے کے شعبہ انجینیئرنگ میں کام کرنے والے یہ مزدور 20 سے 25 کلو وزنی سامان اٹھا کر کئی کلو میٹر کی گشت کرتے ہیں۔

ریلوے کے شعبہ انجینیئرنگ میں سینکڑوں مزدور کم تنخواہوں کے باوجود انتہائی اہم فرائض انجام دے رہے ہیں، جنہیں دوران ملازمت بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔

سکھر ڈویژن میں گذشتہ چھ سال سے ’کی مین‘ کے فرائض انجام دینے والے مقبول حسین مگسی بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔

مقبول حسین مگسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’میں ریلوے ٹریک کی مرمت و دیکھ بھال کے فرائض انجام دے رہا ہوں، جس کے لیے ہمیں ہر روز صبح آٹھ بجے سے شام تک آٹھ سے دس گھنٹے کا مشقت طلب کام کرنا ہوتا ہے۔

’ہمیں پانچ سے چھ کلومیٹر ٹریک پر مسلسل گشت کرتے رہنا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ایک تھیلا ہوتا ہے جس میں 20 سے 25 کلو وزنی سامان ہوتا ہے، دوران گشت ٹریک پر نٹ بولٹس، فلش پلیٹیں اور دیگر سامان کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے۔ کہیں اگر کہیں کچھ ڈھیلا ہو تو اسے درست کردیا جاتا ہے۔‘

مقبول حسین نے بتایا کہ ’جتنا سخت موسم ہوتا ہے ہماری ذمہ داری اتنی ہی زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ بارش ہو یا آگ برساتی گرمی کی دوپہر ہمیں بس اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں بعض مقامات پر عارضی سائے کے لیے بندوبست کرنا پڑتا ہے مگر زیادہ تر ہم لوگ گھومتے ہی رہتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’سکھر ڈویژن میں اکثر ٹریک پر بم دھماکوں کے واقعات بھی ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں ٹریک پر غیر معمولی صورت حال پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے۔ اگر ٹریک پر کوئی ایسا واقعہ ہوجائے تو ہمیں فوری طور پر ٹرینوں کو روکنا ہوتا ہے۔

’اس کے لیے ہمارے پاس ڈیٹونیٹر ہوتے ہیں جو ہم مخصوص فاصلوں پر نصب کرتے ہیں تاکہ ڈرائیور ٹرین کو روک لے۔ اس کے علاوہ مخصوص جھنڈیاں بھی ہوتی ہیں، جن کی مدد سے ٹرین کو روک لیا جاتا ہے۔ دوران ڈیوٹی ہمیں جانوروں اور بعض اوقات چوروں کا سامنا بھی رہتا ہے۔‘

مقبول حسین نے بتایا کہ ’ایک تو ہماری تنخواہ بمشکل 30 ہزار بنتی ہیں دوسری ستم ظریفی یہ کہ بعض اوقات 20، 20 دن تک تنخواہیں نہیں ملتیں، جس کی وجہ سے ہم اپنی ضرورت کی اشیا بھی نہیں لے سکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق: ’دکاندار راشن دینا بند کر دیتے ہیں۔ بس ہمیں صرف ایک ہی سہولت ہے کہ دوران ملازمت ہمیں ایک کمرے کا سرکاری کوارٹر ملا ہوتا ہے، جو ہمارے لیے ایک سہارا ہوتا ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ میرے بعد میرا بیٹا اس پوسٹ پرکام کرے تاکہ یہ بوسیدہ ہی سہی ایک کواٹر کا سہارا تو رہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریلوے کے ڈویژنل انجینیئر خادم حسین بھمبھرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ مزدور ہمارے نظام کا بہت اہم حصہ  ہیں۔ اس لیے ہم انہیں ’کی مین‘ کہتے ہیں۔ ریلوے میں یہ مزدور بطور گینگ مین بھرتی ہوتے ہیں، جو عمومی طور پر مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’گینگ میں ریلوے کے وہ مزدور ہیں جو ٹریک کی مرمت اور دیکھ بھال سمیت دیگر کاموں میں اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ بہت جاں فشانی سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں سندھ میں سیلابی پانی کے باعث زیر آب آنے والے ٹریک کو انہی جفاکش مزدوروں کی مدد سے بحال کیا گیا تھا۔‘

خادم حسین کے مطابق: ’گینگ مین کی ترقی ہوتی ہے تو اسے کی مین بنا دیا جاتا ہے۔ جس کا بنادی پے سکیل فور ہوتا ہے۔ یہ سب لوگ ایک سینیئر مزدور جسے ’میڈ‘ کہتے ہیں، کا کام کرتے ہیں۔ یہ گروپ کی صورت میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘

خادم حسین بھمبرو نے مزید بتایا کہ ’گذشتہ دنوں محکمے میں تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہو رہی تھی مگر ہماری اولین کوشش ہوتی ہے کہ کم سکیل والے ملازمین کو پہلے ادائیگی کروائی جائے۔‘

ریلوے مزدور یونین ’پریم یونین‘ کے مرکزی صدر شیخ محمد انور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ریلوے کے سسٹم میں یہ مزدور بہت اہم فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ نہتے ہوتے ہوئے بھی فوجی جوان کی طرح ٹریک کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان بہادر سپاہیوں کی وجہ سے ریلوے املاک اور مسافروں کی جان و مال کا تحفظ ہو پاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا