امریکی صدر فرینکلن اور سپریم کورٹ کے پانچ جج

ایک سال کے اندر ان پانچ جج صاحبان نے چیف جسٹس کے ساتھ مل کر کانگریس کے اہم اقدامات کو ختم کر دیا۔۔۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر پہلے تو صرف مخالفین نقطہ چینی کرتے تھے لیکن 1936 کی بہار تک اس کے حامی بھی اس کے فیصلوں سے ناخوش تھے۔

1930 کی اس تصویر میں امریکی صدر فرینکلن کو وائٹ ہاؤس میں دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

امریکہ کے پہلے سکریٹری برائے خزانہ الیگزینڈر ہیملٹن نے ایک بار کہا تھا کہ ’عدالتیں حکومت کی برانچوں میں سے بہت کم خطرناک برانچ ہیں، کیونکہ اپنے فیصلوں پر اطلاق کروانے کے لیے نہ تو ان کے پاس سپاہی ہوتے ہیں اور نہ رقم۔‘

انہوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ عدالتیں موروثی طور پر جمہویت مخالف ہوتی ہیں۔

ان کے بقول عدالتیں جمہوریت کو مستحکم کریں گی نہ کہ کمزور کیونکہ آئین عوام کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ حکومت میں موجود سیاست دان عوام کے عارضی اور خطاوار نمائندے ہوتے ہیں۔

نومبر 1936 کی شام جب الیکشن کے نتائج  فرینکلن روزویلٹ تک پہنچے تو وہ اپنی آرام دہ کرسی پر براجمان تھے۔ منہ سے سگریٹ کا دھواں نکالتے ہوئے انہوں نے خوشی میں ’واؤ‘ کہا۔

فرینکلن دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تھے اور وہ امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ اکثریت کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں دوبارہ جا رہے تھے۔

اتنی بڑی اکثریت اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ فرینکلن نے اپنی پہلی مدت میں بطور صدر بہت اہم کام کیے تھے۔

جب وہ 1933 میں پہلی بار صدر بنے تو اس وقت امریکہ میں ایک تہائی افرادی قوت بے روزگار تھی، صنعتیں مکمل بند تھیں، کسان مایوس تھے اور زیادہ تر بینک بند ہو چکے تھے، لیکن فرینکلن نے اپنی پہلی مدت کے پہلے 100 دنوں میں ایسے قدم اٹھائے کہ عوام میں امید پیدا ہوئی اور پھر اپنے تین سالوں میں انہوں نے امریکی عوام کے لیے بہت کام کیے۔

الیکشن جیتنے کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ فرینکلن کو یہ خوف بھی تھا کہ امریکی سپریم کورٹ ان کے اٹھائے ہوئے اقدامات کو ختم نہ کر دے۔ فرینکلن کو صدر بنتے ہی معلوم تھا کہ سپریم کورٹ کے چار جسٹس پیئرس بٹلر، جیمز رینلڈز، جارج سدرلینڈ اور ویلس وین ڈیونٹر ان کے لیے گئے سارے ہی اقدامات کو ختم کر دیں گے۔

امریکی میڈیا میں ان چار جج صاحبان کو ’دا فور ہارس مین‘ کہا جاتا تھا، جو موت اور بربادی کی علامت ہے۔ پھر 1935 کی بہار میں پانچویں جسٹس اوون رابرٹس بھی ان چار کے ساتھ مل گئے۔

ایک سال کے اندر ان پانچ جج صاحبان نے چیف جسٹس کے ساتھ مل کر کانگریس کے اہم اقدامات کو ختم کر دیا۔ انہوں نے صنعت کو دوبارہ فعال کرنے کے، فارم پروگرام اور دیگر پروگرامز کو ختم کر دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر پہلے تو صرف مخالفین نقطہ چینی کرتے تھے لیکن 1936 کی بہار تک اس کے حامی بھی اس کے فیصلوں سے ناخوش تھے۔

فرینکلن کو معلوم تھا کہ اس حوالے سے ان کو کچھ کرنا ہو گا اور بہت جلد کرنا ہو گا۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نے نو مین لینڈ بنا دیا ہے، جہاں حکومت کام نہیں کر سکتی، لیکن فرینکلن کو یہ بھی معلوم تھا کہ انہیں جو بھی کرنا ہے بہت احتیاط سے کرنا ہے کیونکہ مخالفت میں اضافے کے باوجود زیادہ تر عوام کی نظر میں سپریم کورٹ مقدس ادارہ تھا۔

لیکن فرینکلن کو یہ بھی معلوم تھا کہ اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو سپریم کورٹ ان پانچ جج صاحبان کی موجودگی میں انہیں کچھ نہیں کرنے دے گی۔

فرینکلن نے دوسری مدت شروع ہونے سے قبل ہی اپنے اٹارنی جنرل کے ہمراہ منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا۔

ان کو یہ معلوم تھا کہ ضرورت آئین کو تبدیل کرنے کی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کی تشکیل کو تبدیل کرنے کی ہے۔ ججوں کی تعداد میں اضافے سے ان پانچ ججوں کا زور ٹوٹ جائے گا۔

فرینکلن کا منصوبہ تھا کہ ججوں کی عمر کو ٹارگٹ کیا جائے اور کہا جائے کہ ان کی عمر اتنی ہو گئی ہے کہ کارکردگی متاثر ہو رہی ہے اور زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی اوسط عمر 71 سال تھی اور چھ ججوں کی عمریں 70 سال سے زیادہ تھیں۔

فروری 1937 میں فرینکلن نے عدلیہ کے لیے عشائیہ دیا اور سب کچھ بہت احسن طور پر ہوا۔ شام کے اختتام پر ایک سینیٹر نے محسوس کیا کہ کچھ ہونے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا: ’مجھے ایک رومن بادشاہ یاد آگیا ہے جو اپنے کھانے کی میز پر بیٹھے افراد پر نظر ڈالتا تھا اور ہنستا تھا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ کل ان میں سے کون کون نہیں ہو گا‘۔

دو روز بعد فرینکلن نے کانگریس کو حیران کر دیا جب انہوں نے کہا کہ ان کو اجازت دی جائے کہ ہر جسٹس جس کی عمر 70 سال سے زیادہ ہے، اس کی جگہ ایک نیا جسٹس مقرر ہو۔ یعنی فرینکلن کانگریس سے چھ نئے جسٹس مقرر کرنے کہہ رہے تھے۔

فرینکلن کے اس قدم سے امریکی ریاست کے تین ستونوں کے درمیان اس کی تاریخ کی سب سے بڑی کشمکش کا آغاز ہوا۔ سمتھسونین ویب سائٹ کے مطابق 168 روز تک یہ تنازع ہر اخبار اور ریڈیو کی شہ سرخی بنا رہا۔

فریقین کا خیال تھا کہ ملک کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اگر فرینکلن جیتتا ہے تو وہ عدلیہ کی خود مختاری کو ختم کر دے گا اور اگر فرینکلن کو شکست ہوتی ہے تو چند تاحیات جج صاحبان حکومت سے وہ پاور لے لیں گے جو دنیا بھر کی حکومتوں کے پاس ہوتی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس گہما گہمی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک خط میں لکھا کہ صدر کا کہنا ہے کہ زیر التوا مقدموں میں اضافہ ہو رہا ہے اور مزید ججوں کو مقرر کرنے سے ان مقدموں کی سماعت جلدی ہو سکے گی۔

’ججوں کے اضافے سے زیادہ ججوں کو سننا پڑے گا، مزید ججوں سے صلاح مشورہ کرنا ہوگا، زیادہ ججوں سے بات کرنی ہو گی، زیادہ ججوں کو قائل کرنا ہو گا اور پھر فیصلہ دینا ہو گا‘۔

ایک طرف جب فرینکلن کے حامیوں اور مخالفین دونوں کو فرینکلن کی جیت واضح نظر آ رہی تھی سپریم کورٹ نے کچھ حیران کر دینے والے فیصلے دیے۔ یہ وہ فیصلے تھے جن سے ملتے جلتے مقدموں میں وہ اس کے خلاف فیصلے دے چکی تھی، اس نے اس کے حق میں فیصلے دیے۔

یہ فیصلے اس وقت ممکن ہوئے جب جسٹس اوون رابرٹس نے چار جج صاحبان کے ٹولے کو چھوڑ کر دوسری جانب ووٹ دیا۔

جسٹس رابرٹ کے اس عمل سے فرینکلن کو ایک خوش خبری تو یہ ملی کہ ان کے شروع کیے گئے پروگرام محفوظ ہیں لیکن ساتھ ہی نئے جج مقرر کرنے کے منصوبے کو دھچکا لگا۔

سینیٹرز کہنا شروع ہو گئے کہ جب عدلیہ ہی نے اپنا طرز عمل بدل لیا ہے تو اس لڑائی کو جاری رکھنے کا جواز نہیں بنتا اور فرینکلن کے منصوبے کو دفنا دیا گیا۔

فرینکلن جتنے طاقتور الیکشن کی اس شام کو تھے، اس وقت وہ اس سے قدرے کمزور ہو چکے تھے۔

لیکن فرینکلن کے بل کی کی شکست سے سپریم کورٹ کی سالمیت برقرار رہی اور سیاسی مقاصد کے لیے اس کے ججوں میں اضافے کی کوشش ناکام ہوئی۔ 

1937 کے اس 168 دنوں کے تنازعے سے اہم سبق بھی ملے۔ ایک یہ کہ صدر کو سپریم کورٹ کے معاملات میں دخل دینے سے قبل دو بار سوچنا چاہیے اور دوسری جانب جج صاحبان کو یہ سبق ملا کہ اگر انہوں نے بغیر جواز کے جمہوری اداروں کے کام روکے تو ایسا کرنے سے ممکنہ طور پر بحران پیدا ہو سکتا ہے، جس کے غیر متوقع نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ