جب انڈیا میں عدلیہ اور پارلیمان آمنے سامنے آ گئے

پاکستان میں جاری حالیہ سیاسی کشیدگی میں بظاہر پارلیمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے لگ رہے ہیں۔ انڈین میڈیا نے اس سب کو خوب اچھالا اور پاکستان کو ہدف بنایا مگر ایسا نہیں ہے کہ انڈیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔

اندرا گاندھی خود کو نہرو کی وراثت کا حق دار سمجھتی تھیں (اے ایف پی)

پاکستان میں جاری حالیہ سیاسی کشیدگی میں بظاہر پارلیمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے لگ رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد مشتعل ہجوم نے جس طرح ملکی تنصیبات پر دھاوا بولا، وہ یہاں انڈیا سمیت دنیا بھر کے میڈیا نے کور کیا۔ 

انڈین میڈیا پاکستان کو ہدف بنا رہا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ انڈیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا، بلکہ انڈیا میں بھی ایسے واقعات مل جاتے ہیں جب عدلیہ اور حکومت مدِ مقابل آ گئے۔

اس تناظر میں سب سے اہم واقعہ اندرا گاندھی کے دور میں پیش آیا۔ اس وقت انڈیا میں اندرونی سیاسی کشیدگی عروج پر تھی۔ 1973 میں اندرا گاندھی نے روایت کے برعکس تین سینیئر ججوں کو نظر انداز کر کے جونیئر جج جسٹس اے این رائے کو چیف جسٹس بنا دیا۔ انڈین سپریم کورٹ میں روایت تھی کہ عام طور پر سینیئر ترین جج ہی چیف جسٹس بنتا تھا۔

لیکن اندرا گاندھی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جسٹس رائے کی ریٹائرمنٹ پر ایک اور جونیئر جج کو چیف جسٹس بنا دیا۔

جن حلقوں نے جسٹس رائے کی نامزدگی اکا دکا واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دی تھی، وہ اس دوسرے قدم پر خاموش نہیں رہے۔ حتیٰ کہ عدالت عظمیٰ کے ججوں نے بھی اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔ 

1975 کے الیکشن میں اندرا کے مخالف الیکشن لڑنے والے راج نارائن ہار گئے، لیکن جیسا کہ برصغیر میں اکثر ہوتا آیا ہے، راج نارائن نے آرام سے شکست تسلیم کرنے کی بجائے اندرا گاندھی پر دھاندلی کا الزام لگا دیا۔

یہی نہیں بلکہ وہ اس کیس کو عدالت میں لے گئے کہ اندرا حکومت نے بڑے پیمانے پر جھرلو پھیرا ہے۔

یہ کیس چلا اور دنیا بھر میں اس کا چرچا ہوا۔ اس مشہور کیس کو ’اندرا گاندھی بنام راج نارائن کیس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دونوں طرف سے دھواں دار بیان بازی اور وکیلوں کی جانب سے عدالتی جنگ اور قانونی موشگافیوں کے بعد وہ فیصلہ آیا جس نے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اندرا گاندھی کے انتخاب کو دھاندلی زدہ قرار دے کر انہیں نااہل قرار دے دیا۔

اندرا گاندھی اس وقت حلف اٹھا کر وزیر اعظم بن چکی تھیں اور خود کو نہرو کی میراث کا حق دار سمجھتی تھیں۔ انہیں گوارا نہیں تھا کہ ایک ہائی کورٹ انہیں گھر بھیج دے۔

چنانچہ فیصلہ آنے کے بعد فوراً بعد انہوں نے ایک قانون پارلیمان سے منظور کروایا، جسے انڈین آئین کی 39ویں ترمیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کے ذریعے پارلیمان نے بل کی منظوری دی کہ عدالت وزیراعظم، لوک سبھا کے سپیکر، صدر جمہوریہ ہند اور نائب صدر کے خلاف الیکشن کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے کا کوئی جواز نہیں رکھتی۔

اس فیصلے کے بعد انڈیا زبردست سیاسی اور قانونی بحران کی زد میں آ گیا۔ حالات یہاں تک پہنچے کہ اندرا گاندھی نے ملک بھر میں ایمرجنسی لگا دی۔

اس وقت انڈیا میں وہی سوال اٹھا تھا جو پاکستان میں اس وقت اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عدالت قومی اسمبلی کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو معطل یا کالعدم قرار دے سکتی ہے؟

اس سے قبل ایک اور واقعہ رونما ہوا تھا، جس کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ پنجاب حکومت نے پراپرٹی کے متعلق ایک قانون پاس کیا تھا، جس کے خلاف پنجاب کے ایک زمیندار گولک ناتھ سپریم کورٹ چلے گئے۔ پراپرٹی کا حق اس وقت تک انڈیا کے آئین میں بنیادی حقوق میں شامل تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کیس میں انڈین سپریم کورٹ کے 11 رکنی بینچ نے 6:5 کے تناسب سے فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ آئین میں شامل بنیادی حقوق میں کسی قسم کی ترامیم نہیں کر سکتی۔

اس کے بعد پارلیمنٹ نے ایک آئینی ترمیم پاس کی جس کو 24ویں آئینی ترمیم کہا جاتا ہے۔ اس میں پارلیمنٹ نے واضح موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ آئین میں شامل ہر شق بشمول بنیادی حقوق کو ترمیم کا حق رکھتی ہے۔ 

بعد ازاں چھ سال بعد کشوانند بھارتی کیس میں خود سپریم کورٹ آف انڈیا نے یہ فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ آف انڈیا ’بنیادی ڈھانچے کے نظریے‘ (Basic Structure doctrine) کو چھوڑ کر آئین میں موجود ہر شق میں ترمیم کر سکتی ہے۔

گو کہ آئین میں بنیادی ڈھانچے کو کہیں بھی بیان نہیں کیا گیا ہے لیکن ماہرین قانون سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں سے اس کا مطلب اخذ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ریاست کا سیکیولر ڈھانچہ، جمہوری نظام، ملکی سالمیت، وفاقی طرز عمل، قانون کی حکمرانی، پارلیمانی نظام اور آزادانہ انتخابات وغیرہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ تصور کیے جاتے ہیں۔ 

ذکر ہو رہا تھا اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کا۔ اس کے بعد 1977 میں انتخابات ہوئے تو اندرا گاندھی حکومت نہ بنا سکیں۔  اس بار آزادی کے بعد پہلی دفعہ ملک میں کوئی غیر کانگریس مخلوط  حکومت بنی جو اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکی۔ 1980 کے انتخابات میں پھر اندرا گاندھی واضح اکثریت سے اقتدار میں آئیں۔  

1980 میں عدلیہ نے بالآخر پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کر لیا۔ اب انڈیا میں یہ بات طے شدہ ہے کہ پارلیمان ہر طرح کی قانون سازی کر سکتی ہے۔

انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک میں پارلیمانی جمہوری نظام کا طرز حکومت ہے۔ یہ نظام ’ویسٹ منسٹر سسٹم‘ بھی کہلاتا ہے۔ ویسٹ منسٹر برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں اس جگہ کا نام ہے جہاں برطانوی پارلیمان ہے اور برصغیر سمیت بہت سے ملکوں میں جمہوری طرز عمل یہیں سے نقل کیا گیا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کا جمہوری نظام بھی برٹش پارلیمنٹ سے لیا گیا۔ برٹش پارلیمنٹ کو تمام جمہورتوں کی ’ماں‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 

جہاں تک برٹش پارلیمان کی قانون سازی کے اختیارات کی بات ہے تو یہ ہر قسم کا قانون بنانے کا اختیار رکھتی ہے۔ 

مشہور انگریز قانون دان اور سیاسی مصنف جین لوئس ڈی لولمے نے کہا تھا: ’برطانوی پارلیمنٹ مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنانے کے علاوہ ہر قسم کی قانون سازی کر سکتی ہے۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ