کراچی کے کچرے کا آخر ہوگا کیا؟

شہر میں روزانہ پیدا ہونے والے 14000 ٹن کچرے میں سے صرف 8000 ٹن ہی ٹھکانے لگایا جاتا ہے جبکہ باقی 6000 ٹن کچرا شہر کی زینت بنا رہتا ہے۔ یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کچرے کا ڈھیر کیسے بنا۔

کچرے اور کچرے سے جڑے معاملات کراچی کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے (تصاویر: امر گرڑو)

یومِ آزادی پر کراچی کے ضلع جنوبی کی انتظامیہ نے ’بلیو جیکٹ‘ نامی ایک مہم کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد گلی محلوں میں کچرا نہ پھینکنے کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔

متوقع طور پر آئندہ کئی دنوں تک جاری رہنے والی اس عوامی مہم کے دوران 1500 رضاکار ضلع جنوبی کی ہر یونین کونسل میں رہائشیوں، دکانداروں، خوانچہ فروشوں اور کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کریں گے کہ کوڑا کرکٹ جگہ جگہ پھینکنے کی بجائے حکومت کی جانب سے رکھے گئے کوڑے دانوں میں ڈالا جائے تاکہ نہ صرف شہر کی صفائی ہو بلکہ کچرا اٹھانے میں بھی آسانی ہو۔

حکومتِ سندھ کے تعاون سے شروع ہونی والی اس عوامی مہم کا آغاز کلفٹن ٹاؤن کی مشہور یادگار تین تلوار پر واقع تھیم پارک میں ایک تقریب سے کیا گیا، جس میں حکومتی عہدیدار اور ضلعی انتظامیہ کے افسران سمیت ٹی وی اور فلمی صعنت سے وابستہ فنکاروں اور گلوکاروں نے شرکت کی۔

ضلع جنوبی کے ڈپٹی کمشنر سید صلاح الدین احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو ’بلیو جیکٹ‘ عوامی مہم کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’کراچی کا مسئلہ کچرا اٹھانا نہیں بلکہ کچرا پھینکنا ہے۔ لوگ جب مقرر کردہ جگہوں پر رکھے ہوئی کچرے دانوں کی بجائے جگہ جگہ پر کچرا پھینکتے ہیں تو اس کے باعث نہ صرف شہر گندا رہتا ہے بلکہ کچرا اٹھانے والے عملے کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’یہ مہم ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے جس کا مقصد عوام میں یہ آگاہی پیدا کرنا ہے کہ کوڑا جگہ جگہ پر نہ پھینکیں۔ اس مہم کی کامیابی کے بعد شہر کے دوسرے اضلاع میں بھی یہ مہم شروع کی جائے گی۔‘

ضلع جنوبی کی انتظامیہ نے بوٹ بیسن پر واقع فوڈ سٹریٹ انتظامیہ سے بھی بات کی کہ وہ کھانا کھانے آنے والوں کو بھی یہ بات سمجھائیں کہ کوڑا ہر جگہ نہ پھینکیں۔

اس مہم میں حکومت سندھ کا اخلاقی تعاون حاصل ہے جبکہ مہم پر آنے والی لاگت کو پورا کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مختلف کمپنیوں، صعنتوں اور عام لوگوں سے چندا اکٹھا کیا جائے گا۔

تقریباً 18 لاکھ آبادی والے ضلع جنوبی میں 30 یونین کونسلیں ہیں اور اس مہم کے تحت ہر یونین کونسل میں 50 رضاکار عوامی مہم چلائیں گے۔

صوبے اور شہر کے اہم ترین دفاتر ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی لحاظ سے بھی ضلع جنوبی کراچی کا اہم ترین ضلع سمجھا جاتا ہے۔ اس ضلع میں کئی قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے دفاتر، تقریباً سب ہی بینکوں کے ہیڈ آفس، اکثر اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے دفاتر، فائیو سٹار ہوٹلز، شہر کا سب سے بڑا ہسپتال، وزیراعلیٰ ہاؤس،گورنر ہاؤس، سندھ اسمبلی، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ رجسٹری کے علاوہ تقریباً سب ہی ممالک کے سفارتخانے اور قونصل خانے واقع ہیں۔

اس ضلع میں ڈیفنس، کلفٹن اور بوٹ بیسن جیسے شہر کے امیر ترین علاقے، اقتصادی مرکز صدر ٹاؤن کی کچھ یونین کونسلیں اور لیاری ٹاؤن شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ضلع جنوبی کے ساتھ سمندر کا ایک بڑا حصہ بھی لگتا ہے جہاں کئی بڑے نالے گھریلو فضلہ لیے سمندر میں گرتے نظر آتے ہیں جبکہ  سمندر کے کنارے بھی کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔

کچرے کو ٹھکانے کیسے لگایا جائے گا؟

جب ڈپٹی کمشنر سید صلاح الدین احمد سے پوچھا گیا کہ اگر یہ بلیو جیکٹ مہم کامیاب بھی ہوجاتی ہے اور لوگ جگہ جگہ کچرا پھینکنے کے بجائے مقرر کردہ کوڑے دانوں میں کچرا پھینکتے ہیں تو اس کے بعد کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے کیا انتظامات ہیں؟ کیوں کہ کراچی میں ایک بھی سائٹ نہیں جہاں کچرے کو ری سائیکل کرکے سائنسی بنیادوں پر محفوظ طرح سے ٹھکانے لگایا جاسکے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ: ’کوڑے کو جمع کرنا اور ٹھکانے لگانا دوسرا مرحلہ ہے۔ پہلے تو عوام کھلے علاقوں میں کچرا پھینکنے سے گریز کریں۔ اس کے علاوہ اس مہم کے تحت کچرہ دانوں کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے تاکہ بہتر طریقے سے کچرا جمع کیا جاسکے۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے ضلع جنوبی میں روزانہ 1200 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جو بقول ڈپٹی کمشنر پہلے مرحلے میں گارڈن کے قریب دھوبی گھاٹ کے پاس بنی ایک جگہ لے جایا جاتا ہے اور بعدازاں شہر کی کچرا ٹھکانے لگانے کی سائٹ جام چکرو میں لے جاکر پھینکا جاتا ہے۔

شہر میں روزانہ کتنا کچرا پیدا ہوتا ہے؟

کچرے اور کچرے سے جڑے معاملات کراچی کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ ساون کی رُت ہو، عید جیسا اہم مذہبی تہوار یا پھر یوم آزادی، ذکر ہمیشہ کچرے کا ہی رہتا ہے۔ حتیٰ کہ سرکاری محکمے بھی کچرے کے حوالے سے مہم ان ہی اہم دنوں سے شروع کرتے ہیں۔

2014 کے ایک قانون کے تحت خطیر رقم سے بننے والے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ڈپٹی ڈائریکٹر الماس سلیم کے مطابق کراچی شہر سے روزانہ 14000 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف 8000 ٹن ہی جمع کیا جاتا ہے اور باقی کچرا شہر میں ہی موجود رہتا ہے۔

بقول ان کے: ’ہمارے پاس کراچی میں کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے دو بڑی سائٹس ہیں۔ ایک جام چکرو اور  دوسری گوند پاس، جو پانچ پانچ سو ایکڑ کی سائٹس ہیں اور شہر بھر سے کچرا جمع کرکے یہاں لایا جاتا ہے۔ یہاں پھینکنے سے پہلے کچرے کا وزن کیا جاتا ہے مگر ان دونوں سائٹس پر صرف 8000 ٹن کچرا ہی پہنچ پاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلویز، کراچی کے کنٹونمنٹ، سول ایوی ایشن سمیت 19 اداروں کا کچرا ان سائٹس پر نہیں آتا، وہ اپنے حساب سے کچرا ٹھکانے لگاتے ہیں۔‘

کچرا ٹھکانے لگانے والی شہر کی یہ اکلوتی سرکاری سائٹس دو  بڑے میدانوں پر مشتمل ہیں، جہاں شہر بھر سے کچرا لاکر کھلے آسمان تلے پھینک دیا جاتا ہے اور بعد میں آگ لگادی جاتی ہے، جس سے نکلنے والا دھواں شہر کے اوپر منڈلاتا پھرتا ہے۔

اس حوالے سے الماس سلیم کا کہنا تھا کہ ’کچرے کو کوئی آگ نہیں لگاتا بلکہ کچرے میں موجود کچھ کیمیکلز سے خودبخود آگ لگ جاتی ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ دونوں سائٹس سائنسی بنیادوں پر نہیں بنی ہوئیں اور اب سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے ٹینڈر جاری کیے ہیں کہ کچرا ٹھکانے لگانے والی سائٹس کو سائنسی بنیادوں پر بنایا جائے۔‘

اس حساب سے شہر میں روزانہ پیدا ہونے والے 14000 ٹن کچرے میں سے 8000 ٹن شہر سے باہر لے جاکر کھلے آسمان تلے پھینک دیا جاتا ہے جبکہ باقی 6000 ٹن کچرا شہر ہی کی گلیوں، راستوں، رہائشی عمارتوں اور کمرشل مراکز کے پاس پڑا رہتا ہے، یعنی ایک مہینے میں ایک لاکھ 80 ہزار ٹن کچرا شہر سے اٹھایا ہی نہیں جاتا اور یہ عمل پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کچرے کا ڈھیر کیسے بنا۔

صحت اور ماحول پر اثرات

کوڑے کرکٹ کے اتنے بڑی تعداد میں شہر میں پڑے رہنے سے نہ صرف صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ ماحول کے لیے بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

ماحول کے بقا کے لیے عالمی سطح پر کام کرنے والے ادارے آئی یو سی این کی ایکوسسٹم کی مینجمٹ پر بنے کمیشن سے منسلک ماہرِ ماحولیات ندیم میر بحر کے مطابق غیر سائنسی بنیادوں پر کچرے کو لینڈ فل سائٹ پر پھینکنے سے اس کچرے سے میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی رہتی ہے جو گرین ہاؤس گیسز ہیں اور ان کے اخراج سے موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔

جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیمی جمالی کے مطابق کچرے سے نکلنے والی گیسز اور کچرے کے جلنے سے پیدا ہونے والے دھویں سے سانس اور دمے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بارشوں کے بعد کچرے کا پینے کے پانی میں شامل ہوجانے سے کالے اور پیلے یرقان، پیٹ کے امراض اور پولیو وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’عید کے دوران شہر میں لاکھوں جانور آنے سے کانگو وائرس کا خدشہ رہتا ہے اور جگہ جگہ آلائشیں پھینکنے سے صحت کے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔‘

گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی نے ایک ارب 75 کروڑ روپے چندہ جمع کرکے کراچی کو صاف کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی شہری حکومت بھی اس طرح کے اعلانات کر چکی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات