وفاقی حکومت نے 20 مئی کو ججوں کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تین رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا ہے، جس کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں جبکہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اس کے ارکان میں شامل ہیں۔
کمیشن 30 روز میں مقرر کردہ ٹی او آرز کے تحت تحقیقات مکمل کر کے سفارشات پیش کرے گا، جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ آئندہ کیا قانونی لائحۂ عمل اختیار کیا جانا چاہیے۔
لیکن اس کمیشن کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، خاص طور پر یہ سوال کہ آیا بظاہر غیر قانونی طریقے سے حاصل کردہ شواہد کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
پاکستانی قوانین کے تحت کسی کی فون ریکارڈنگ صرف عدالتی حکم کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ’اگر کوئی مجاز افسر متعلقہ عدالت کے سامنے مناسب وجوہات پیش کرے کہ ریکارڈنگ کسی مجرمانہ تحقیقات کی تفتیش کے لیے ہو رہی ہے، تبھی عدالت ایسی ریکارڈنگ کی اجازت دے سکتی ہے۔‘ اس کی مدت بھی مقرر کی گئی ہے اور عام حالات میں یہ مدت سات دن ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اس پر ایک ٹویٹ کے ذریعے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’کمیشن کو اس بات کی تحقیقات کرنے کا اختیار دیا جائے کہ یہ طاقتور اور نامعلوم عناصر کون ہیں جو اعلیٰ سرکاری عہدےداروں سمیت شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو کو ٹیپ اور ریکارڈ کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ رازداری کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس کی آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔ غیر قانونی طور پر فون ریکارڈ کرنے اور نگرانی کے ذریعے غیر قانونی طور پر ڈیٹا حاصل کرنے والوں کا نہ صرف احتساب ہونا چاہیے بلکہ مختلف فون کالز بنانے (fabrication) اور کانٹ چھانٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر لیک کرنے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔‘
کیا واقعی انکوائری کمیشن مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے حاصل کردہ آڈیو لیکس کی بنیاد پر کارروائی کر سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے کمیشن کے قواعد و ضوابط پر ایک نظر ضرور ڈالنی چاہیے۔ اس کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) یہ ہیں:
• آڈیو لیکس کی درستگی کی چھان بین
• میڈیا پر نشر ہونے والے ان الزامات کی چھان بین جن میں مبینہ طور پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کے داماد ملوث ہیں۔
• یہ تحقیق کہ آیا قانون مہیا کرنے کے عمل، منصفانہ حقِ سماعت اور شہریوں کو برابر سمجھنے کا عمل تو متاثر نہیں ہوا۔
• پاکستان پینل کوڈ، 1860 یا کسی دوسرے قانون کے تحت کسی شخص یا سرکاری عہدے دار کے خلاف مبینہ آڈیو لیک میں نامزد کسی بھی یا تمام افراد کی ذمہ داری کا تعین۔
• یہ معلوم کرنا کہ آیا کسی قسم کی تادیبی کارروائی کی ضرورت ہے۔
کون سی آڈیو لیکس کی تحقیقات ہو رہی ہیں؟
1۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور ایک وکیل کے درمیان سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ جج کے بارے میں ٹیلی فون کال
2۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور ایک وکیل کے درمیان سپریم کورٹ کے مخصوص بینچ کے سامنے کچھ کیسز پیش کرنے کے بارے میں ٹیلی فون کال
3۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور سپریم کورٹ کے ایک جج کے درمیان ٹیلی فون کال
4۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور ایک سینیئر وکیل کے مابین ٹیلی فون کال
5۔ ایک وکیل اور صحافی کے درمیان سپریم کورٹ کی ایک مخصوص بینچ کے سامنے کیس کے نتیجے کے بارے میں ٹیلی فون کال
6۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے ایک ساتھی کے درمیان سپریم کورٹ میں ان کے روابط کے بارے میں ٹیلی فون کال
7۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس اور ایک وکیل کی اہلیہ کے درمیان سپریم کورٹ کے کیسوں اور غیر آئینی اصول پر ٹیلی فون کال
8۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب اور ان کے دوست کے درمیان ٹیلی فون کال کے دوران اپنے والد کا ذکر
کیا کمیشن انکوائری کر سکتا ہے؟
پیر کو انکوائری کمیشن کی پہلی کارروائی کے دوران کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’کمیشن بذریعہ اشتہار عوام سے بھی معلومات فراہم کرنے کا کہے گا، لیکن معلومات فراہم کرنے والے کو شناخت ظاہر کرنا لازمی ہو گی۔ نامعلوم ذرائع سے آنے والی معلومات قابل قبول نہیں ہوں گی۔‘
بظاہر یہ مانگی گئی معلومات ان آڈیو لیکس کے علاوہ ہیں، جن کی تحقیقات کے لیے یہ کمیشن ترتیب دیا گیا ہے۔
اصولِ استثنا (Exclusionary Rule)
دنیا بھر میں ایک قانونی اصول نافذ ہے جسے exclusionary rule کہا جاتا ہے۔ امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی کے لیگل انفارمیشن انسٹی ٹیوٹ کی تعریف کے مطابق اس اصول کا مقصد حکومتوں کو آئین کے خلاف لوگوں کے خلاف شواہد اکٹھے کرنے سے روکنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سادہ الفاظ میں یہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی ملزم کے خلاف کوئی بھی شہادت کسی ایسے طریقے سے حاصل کی گئی ہو، جو آئین و قانون کے خلاف ہو تو اس کی بنیاد پر ملزم کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔
سپریم کورٹ نے بھی ’اصولِ استثنا‘ کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ 1998 میں ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا کہ ’اصولِ استثنا‘ منصفانہ سماعت کا اہم حصہ ہے۔‘ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی لکھا کہ ’یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے طاقت کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہے۔
معروف قانون دان اور ماہرِ آئین اور قائداعظم یونیورسٹی میں شعبۂ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس حوالے سے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیرقانونی ذرائع سے حاصل کردہ شواہد کو عدالت میں بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’البتہ یہ صرف ایک فیکٹ فائنڈنگ یا تحقیقاتی کمیشن ہے، عدالت نہیں ہے۔ یہ کمیشن صرف سفارشات مرتب کرے گا جن کی بنیاد پر ممکنہ طور پر آگے چل کر کسی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ جب بھی ایسا ہوا، تو اس عدالت کے سامنے ضرور یہ سوال آئے گا کہ یہ شواہد کس نے اکٹھے کیے ہیں اور کیسے اکٹھے کیے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ نامعلوم اور گمنام ذرائع سے حاصل کردہ شواہد پاکستانی قانون کے تحت قابلِ قبول نہیں ہوتے کیونکہ بنیادی شرط یہی ہوتی ہے کہ ایسے ذرائع پر جرح کی جا سکے، جو گمنام ذرائع کے کیس میں ممکن نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر عزیز نے یہ بھی کہا کہ البتہ ’پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن اور پرائیویسی یا رازداری کے اس طرح کے جامع قوانین موجود نہیں ہیں، جو ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں اور قانون سازوں کو چاہیے کہ اس طرف توجہ دیں اور موثر قانون سازی کریں۔‘