پاکستان شاہینز: مستقبل کے ستارے جو زمبابوے میں ڈوب گئے

پاکستان کے مستقبل کے ستارے اگر زمبابوے جیسی ناتجربے کار ٹیم سے بری طرح ہار سکتے ہیں تو بڑی ٹیموں کے سامنے کیسے کھیلیں گے؟

پاکستان شاہینز زیادہ تر نئے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ تاہم اس میں ٹیسٹ کرکٹر عمران بٹ، محمد علی، میر حمزہ اور انٹرنیشنل کھلاڑی کامران غلام، حسین طلعت اور شاہنواز دہانی شامل تھے)تصویر: زمبابوے کرکٹ)

چند ٹیسٹ کرکٹرز اور ڈومیسٹک کرکٹ کے کامیاب ترین کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستان شاہینز کا زمبابوے کا حالیہ دورہ ناکام رہا۔

زمبابوے نے اپنی سینیئر ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں اور جونیئر کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم تشکیل دی تھی جس نے توقعات کے برعکس پاکستان کی اس ٹیم کو شکست دی جسے مستقبل کی قومی ٹیم کہا جا رہا تھا۔

پاکستان شاہینز نے اس دورے پر دو غیر سرکاری ٹیسٹ میچ اور چھ ایک روزہ میچ کھیلے جن میں دونوں ٹیسٹ میچ تو شاہینز جیت گئے لیکن ایک روزہ میچوں میں زمبابوے سیلیکٹ نے 2-4 کی خفت سے دوچار کیا۔ 

پاکستان شاہینز زیادہ تر نئے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ تاہم اس میں ٹیسٹ کرکٹر عمران بٹ، محمد علی، میر حمزہ اور انٹرنیشنل کھلاڑی کامران غلام، حسین طلعت اور شاہنواز دہانی شامل تھے۔

عمران ٹیم کے کپتان تھے لیکن ان کے ساتھ حسین اور کامران کو بھی کچھ میچوں میں کپتان مقرر کیا گیا۔

پاکستان نے ٹیسٹ میچوں میں زمبابوے کو باآسانی زیر کیا کیونکہ ان میچوں میں زمبابوے نے بالکل ناتجربے کار ٹیم کو موقع دیا جو پاکستان کی بولنگ اور بیٹنگ کا جواب نہ دے سکی۔

پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ میچوں میں عمیر یوسف اور محمد حریرہ نمایاں رہے جنھوں نے سنچریاں بنائیں جبکہ بولنگ میں راولپنڈی کے نوجوان لیفٹ آرم بولر مہران ممتاز نے عمدہ کارکردگی دکھاتے ہوئے دو میچوں میں 15 وکٹ لیے۔

حیرت انگیز طور پر کامران اور حسین بڑی اننگز نہ کھیل سکے جبکہ دہانی اور حمزہ بھی زیادہ وکٹ نہ لے سکے۔

پاکستان دونوں ٹیسٹ تو جیت گیا لیکن اس جیت کو زبردست نہیں کہا جا سکتا۔

زمبابوے نے ایک روزہ سیریز میں اپنے چند سینیئر کھلاڑیوں کو موقع دیا، جنھوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کی قلعی کھول دی۔

پاکستان کی بیٹنگ نے کہیں کہیں کارکردگی اچھی ضرور دکھائی لیکن مجموعی طور پر نامناسب رہی۔ 

عمیر ایک بار پھر سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز رہے۔ انھوں نے چار میچوں میں 275 رنز بنائے، جس میں ایک سنچری شامل تھی۔

حیرت انگیز طور پر انھیں ٹیسٹ سیریز میں عمدہ کارکردگی دکھانے کے باوجود پہلے ایک روزہ میچ میں موقع نہیں دیا گیا۔

بیٹنگ میں زمبابوے کے کپتان شین ارون سب سے آگے رہے۔ انھوں نے دو سنچریوں کے ساتھ 416 رنز بنا کر پاکستانی بولنگ کی کمزوریاں عیاں کر دیں۔

بولنگ میں عامر جمال نے 16 وکٹیں لے کر نام کمایا لیکن ان کی بولنگ سیریز نہ جتا سکی۔ دہانی نے بھی 13 وکٹ لیے لیکن وہ مہنگے رہے، خاص طور سے آخری میچ میں رنز دینے کی سنچری کر گئے۔

قاسم اکرم نے بھی مایوس کیا البتہ ایک میچ میں ان کی بروقت نصف سنچری میچ جتا گئی۔

ٹیم افراتفری کا شکار

شاہینز کی سیلیکشن پر پہلے ہی کافی سوالات اٹھ رہے تھے لیکن امید تھی کہ کارکردگی سارے سوالات دھو دے گی تاہم ایسا ہو نہ سکا۔ 

ٹیم کی کوچنگ سابق ٹیسٹ کرکٹر اعزاز چیمہ کے ہاتھ میں تھی لیکن بیچ ٹور میں قومی ٹیم کے کوچ عبدالرحمان کو کنسلٹنٹ بنا کر بھیج دیا گیا، جنھوں پے درپے تجربات کرکے ٹیم کا کامبینیشن خراب کر دیا۔

کپتان عمران کو تین میچوں میں بری کارکردگی پر ڈراپ کر کے حسین کو دو میچوں اور کامران کو آخری میچ میں کپتان بنایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تبدیلیوں کی کوئی وجہ تھی اور نہ مجبوری، لیکن سب کو کپتانی کا تاج پہنانے کے لیے غیر ضروری تجربہ کیا گیا۔

کوچ ٹیم کی کوئی منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہے اور ایک ایسے دورے پر جس میں تمام میچ جیتنا چاہیے تھے شکستیں ملیں۔

بولنگ میں قاسم کو صحیح استعمال نہیں کیا گیا جبکہ فاسٹ بولرز کو زمبابوے کی پچوں پر بولنگ کی منصوبہ بندی نہیں کرائی گئی جس سے وہ مہنگے ثابت ہوئے۔

مجموعی طور پر اس سیریز میں شکست نے پاکستان کے کرکٹ مستقبل پر سوال اٹھا دیے ہیں کیونکہ جن کھلاڑیوں کو مستقبل کہا جا رہا ہے اگر وہ زمبابوے جیسی کمزور ٹیم سے بری طرح ہار سکتے ہیں تو بڑی ٹیموں کے خلاف کیا کریں گے؟

دورے کی دریافت

اگر اس دورے میں کوئی مثبت بات رہی تو وہ عمیر اور مہران کی کارکردگی تھی۔ دونوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپورمظاہرہ کیا۔ 

مہران کے لیے بہت اچھا موقع ہے کہ وہ قومی ٹیم میں جگہ بنا لیں کیونکہ پاکستان ٹیم میں بائیں ہاتھ کے سپنر کی سخت ضرورت ہے۔

اگر وہ محنت کریں تو جلد نمایاں بولر بن سکتے ہیں۔ بلوچستان کے حسیب اللہ نے بھی اچھی کارکردگی (221 رنز) دکھائی۔

آخری میچ میں مباصر خان نے سنچری بنا کر دورے کا اختتام اپنے طور پر اچھا کیا۔ وہ بھی مستقبل میں اچھے آل راؤنڈر بن سکتے ہیں۔

وہ اس سے پہلے پاکستان سپر لیگ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ عمیر پاکستان کے مڈل آرڈر کو تقویت دے سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انھیں موقع دینا ضروری ہے۔

پی سی بی کو اس دورے میں کھلاڑیوں کے ساتھ کوچز کی خراب کارکردگی کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ