چترال میں آئس ہاکی کھیلنے والی ’مناہل‘ کی کہانی

دل میں آئس ہاکی کھیلنے کا خواب لیے مناہل بلاآخر اپنے مقصد میں کیسے کامیاب ہوتی ہیں؟ یہ کہانی ناظرین کے سامنے لائی گئی ہے ’مناہل‘ نامی فلم میں جس کی عکس بندی چترال اور ہنزہ کی دلکش وادیوں میں کی گئی ہے۔

چترال کے ایک چھوٹے سے گاؤں بونی میں ایک لڑکی جنوری کے سرد موسم میں ایک طرف شال لپیٹے اپنی ہم عمر لڑکیوں کو آئس ہاکی کھیلتے دیکھ رہی ہوتی ہے، لیکن وہ خود اس کھیل کا حصہ نہیں بن سکتی۔

دل میں آئس ہاکی کھیلنے کا خواب لیے مناہل بلاآخر اپنے مقصد میں کیسے کامیاب ہوتی ہے؟ یہ کہانی ناظرین کے سامنے لائی گئی ہے ’مناہل‘ نامی فلم میں جس کی عکس بندی چترال اور ہنزہ کی دلکش وادیوں میں کی گئی ہے۔

کینیڈین ہائی کمیشن اور سرینا ہوٹلز کے اشتراک سے بننے والی اس فلم کے ڈائریکٹر وجاہت ملک ہیں جو اس سے قبل اپنی فلم ’جلاواں‘ کے لیے تین بین الاقوامی ایوارڈز جیت چکے ہیں۔

بونی کے گاؤں کی یہ کہانی لڑکیوں کے آئس ہاکی کھیلنے کے شوق اور اس میں حائل رکاوٹوں کے گرد گھومتی ہے۔

مناہل اپنی ساتھی کھلاڑیوں کی مدد سے علاقے کے بڑوں کو اس بات پر آمادہ کر لیتی ہیں کہ وہ ان کے والد کو اس بات پر قائل کریں کہ مناہل آئس ہاکی کے سالانہ ٹورنامنٹ میں ٹیم کا حصہ ہوں۔

اس فلم میں صرف سخت علاقائی روایتوں کو ہی موضوع نہیں بنایا گیا۔ اس میں منفرد پہلو کے طور پر چترال کی لڑکیوں کا گلگت اور ہنزہ کی لڑکیوں سے مقابلے بازی کا عنصر بھی شامل ہے۔

مناہل کے لیے یہ سفر انٹرنیشنل ہاکی کے منزلوں تک کا ضامن بن سکے گا؟ یہ تو ناظرین کو فلم دیکھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا۔

فلم کے ڈائریکٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ یہ فلم چترال کی ’کھوار‘ زبان میں بنی ہے اور اس میں انگریزی کے سب ٹائٹل موجود ہیں۔

فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی مناہل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں جب قبول کیا جانے لگا تو یہ سب آسان ہوگیا۔ ہم نے جب نلتر میں مضبوط ٹیم سے میچ جیتا تو اس سفر کی شروعات ہوئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مناہل کا یہ اداکاری کا پہلا تجربہ تھا جس کے حوالے سے وہ خاصی پرجوش دکھائی دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آئس ہاکی کو پروفیشن بنانا چاہتی ہیں۔

کینیڈین ہائی کمیشن کی فرسٹ سکریٹری امینڈا ڈی سیڈلیئر سے انڈپینڈنٹ اردو نے پوچھا کہ آئس ہاکی منصوبے کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا؟

اس پر انہوں نے جواب دیا: ’ یہ گذشتہ چار سالوں سے ہمارے لیے بہت دلچسپ منصوبہ رہا ہے۔ یہ ہماری عوامی سطح پر سفارت کاری کا حصہ ہے جس میں ہم دور دراز پہاڑی علاقوں کی آبادی کے سرد موسم کے تہواروں میں شرکت کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں آئس ہاکی کا بھی معلوم ہوا جو کہ کینیڈا کی عوام میں بہت مقبول ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں خواتین کو بااختیار بنانے کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے موضوعات میں مقامی شراکت داری میں کام کر رہے ہیں۔

کینیڈا کے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق موقف پر جب ان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا: ’ ماحولیاتی تبدیلی ہم سب کو متاثر کر رہی ہے اور ہم ایک ماحولیاتی بحران کا شکار ہیں۔ کینیڈا میں بھی موسم گرما میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آئے جبکہ یہاں بھی ایک خوفناک طوفان حال ہی میں آیا۔

’ماحولیاتی تبدیلی سے دونوں ممالک گزر رہے ہیں اور اس پر ایک ساتھ ہی بات ہوسکتی ہے اور حل نکالا جاسکتا ہے۔‘

انہوں نے مناہل کی کہانی پر امید ظاہر کی کہ وہ خواتین اور کم عمر لڑکیوں کے لیے آئس ہاکی کے کھیل کی راہ ہموار کرسکے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم