جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پنجاب حکومت کی اپیل پر پیر کو سماعت کرتے ہوئے 10 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی فوج کو دینے سے متعلق سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کردیا۔
سنگل یبنچ نے زرعی مقاصد کے لیے زمین فوج کو دینے کا اقدام غیر قانونی قرار دیا تھا۔
پنجاب حکومت کی طرف سے زرعی مقاصد کے لیے زمین فوج کو لیز پر الاٹ کی گئی تھی، جس کے خلاف پبلک انٹرسٹ لا ایسوسی ایشن پاکستان نے درخواست دائر کر رکھی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے جسٹس عابد حسین چٹھہ نے گذشتہ ماہ ایک فیصلے میں پنجاب حکومت کی جانب سے فوج کو صوبے میں 10 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی لیز پر دینے کے معاہدہ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
جسٹس عابد حسین چٹھہ کی طرف سے سنائے گئے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ زرعی پالیسیوں سے متعلق حکومتی فیصلے کو ریگولیٹ کرنا عدالتی کا کام نہیں اور زرعی اراضی کی لیز کے معاہدے کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ قانون کے منافی ہے۔
پنجاب کی نگران حکومت نے اپنی اپیل میں یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ زرعی اراضی کی لیز کا فیصلہ نگران حکومت نے نہیں کیا بلکہ اس کی ابتدا صوبے کی گذشتہ منتخب حکومت کے دور میں ہوئی تھی۔
صوبائی حکومت کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
فوج کو زرعی زمین لیز پر دینے کے عمل کی ابتدا سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے دور حکومت میں ہوئی تھی۔
جسٹس عابد حسین چٹھہ نے فیصلے میں کیا کہا؟
لاہور ہائی کورٹ نے سنگل بینچ نے حکومتی اقدام کو ’اختیارات سے تجاوز‘ اور معاہدے کو ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے تمام سرکاری زمین پنجاب حکومت کو واپس کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ مسلح افواج بشمول پاکستانی فوج اور/ یا اس کے ماتحت یا منسلک محکموں/ دفاتر کے پاس آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے اقدام میں شامل ہونے اور اس میں حصہ لینے کے لیے آئینی اور قانونی مینڈیٹ موجود نہیں ہے۔
فیصلے میں مسلح افواج کے ہر رکن کو آئین میں طے شدہ حلف کی روشنی میں مسلح افواج کے آئینی اور قانونی مینڈیٹ اور آئین اور قانون کے تحت اس کی ممکنہ خلاف ورزیوں سے پیدا ہونے والے نتائج کے بارے میں حساس بنانے کے لیے بھی ضروری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حکومتی رپورٹ
وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر احمد نے عدالت میں رپورٹ جمع کروائی تھی، جس میں تفصیل سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی وضاحت پیش کی گئی تھی۔
حکومتی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’آئین کے آرٹیکل 37 اور 38 میں ریاست کو اختیار ہے کہ وہ مفاد عامہ کے لیے خوراک اور روزگار کا بندوبست کرنے کے لیے اس طرح کے اقدامات کر سکتی ہے۔‘
فوج کا زمین لینے کا مقصد
پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) کی جانب سے فروری 2023 میں محکمہ ریوینیو پنجاب کو بھیجے گئے ایک خط میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان سمیت دنیا بھر میں قدرتی خوراک اور مہنگائی کا چیلنج درپیش ہے، جس سے فوج کو بھی خوراک کی خریداری سے متعلق مسائل کا سامنا ہے، لہذا حکومت پنجاب صوبے کے مختلف علاقوں میں غیرآباد سرکاری زمین کارپوریٹ ایگری کلچر سکیم کے تحت الاٹ کر دے۔‘
خط میں کہا گیا تھا کہ ’فوج کے پاس غیر آباد زمینیں آباد کر کے انہیں قابل استعمال بنانے کا تجربہ ہے، اس کے لیے ماہر عملہ بھی موجود ہے۔ اگر حکومت پنجاب کی جانب سے ملکی وسیع تر مفاد میں زمین الاٹ کی جاتی ہے تو وسیع پیمانے پر کاشت کاری اور لائیو سٹاک سمیت دیگر شعبوں میں پیداوار بڑھائی جاسکے گی۔‘