نگران وفاقی وزیر قومی ورثہ و ثقافت جمال شاہ کا کہنا ہے کہ ’اگر میں عمران خان کا مخالف ایک وقت پر آ کر ہوا ہوں تو وہ بھی اس لیے کہ وہ تواتر سے غلطیاں کرتے رہے ہیں۔ میرے نظریات عمران خان سے مختلف تھے میں عمران خان کو سیاست دان نہیں سمجھتا۔‘
یہ بات انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ان سے بہت امیدیں تھیں، ایک ایسا شخص جس پہ لوگوں کو بڑا مان تھا کہ وہ ڈیلیور کرے گا اور وہ شخص جب بہت سمجھوتوں کے ساتھ کرسی پہ بیٹھتا ہے تو ایسے شخص کے لیے میرے دل میں کوئی احترام نہیں ہے۔ جو سیاست دان سمجھوتے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ان کو میں سنجیدہ نہیں لیتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے عمران خان کو فاشسٹ تو نہیں کہا شاید کبھی کہا بھی ہو کیوں کہ وہ ایسی بات کر جاتے ہیں، مخالفین کے بارے میں بچکانہ باتیں کرتے رہے ہیں کہ اے سی اتروا دوں گا وغیرہ وغیرہ۔ سیاست تو بہت بڑی ذمہ داری ہے سیاست دان تو بہت سنجیدہ لوگ ہوتے ہیں انہیں اپنے گردوپیش کا احساس ہوتا ہے وہ غیر ذمہ دارانہ حرکتوں میں حصہ نہیں لیتے۔‘
سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’اب تو مجھے سوشل میڈیا کے لیے وقت نہیں ملتا۔ ایک حوالے سے اچھا ہے کہ سوشل میڈیا سے دور ہوں کیوں کہ سوشل میڈیا میں سوائے ٹینشن کے کچھ نہیں ہے۔
’ہمارے غیر ذمہ دار لیڈرز نے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے سوشل میڈیا فوج بنا دی ہے جو صرف گالیوں پر بنی ہیں۔ شدید ترین بھی اختلاف ہو اس کو اخلاق تمیز کے دائرے میں رہ کر کرنا چاہیے۔‘
جمال شاہ نے وزارت کی پیش کش پر کہا کہ ’وزارت کی پیش کش میرے لیے ایک سرپرائز تھی مجھے اس بارے میں علم نہیں تھا۔ وٹس ایپ پر ایک دعوت نامہ ملا جس میں لکھا تھا کہ وفاقی نگران وزیر کے لیے حلف اٹھاؤں۔ بہرحال حلف اٹھا لیا لیکن یہ علم نہیں تھا کہ وزارت کون سی ہے بس اندازا تھا کہ میں ایک آرٹسٹ ہوں تو آرٹ سے منسلک ہی کچھ ہو گا۔‘
وٹس ایپ پیغام کس کا تھا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کچھ توقف کے بعد کہا کہ ’ایوان صدر سے ہی کسی کا پیغام تھا۔‘
جب ان سے پوچھا کہ کتنے ماہ کے لیے وزیر بنے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’تین ماہ کے لیے تو بالکل نہیں ہوں گا چھ ماہ کے لیے ہوں گا کیوں کہ جو الیکشن کمیشن کے فیصلے سے پتہ چل گیا ہے کہ فروری تک تو نگران سیٹ اپ رہے گا۔ لیکن اس سے زیادہ نگران سیٹ اپ طویل نہیں ہونا چاہیے۔‘
جب نگران وزیر قومی ورثہ و ثقافت سے سوال کیا گیا کہ رائے بن چکی ہے کہ نگران کابینہ میں جتنے بھی لوگ ہیں وہ تحریک انصاف اور عمران خان کے مخالف رہے ہیں ایسا کیوں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’میری کوالیفیکیشن صرف یہ تھوڑی ہے کہ میں عمران خان کا مخالف ہوں۔ میں نے عمران خان کی اوائل دنوں میں بہت مدد کی جب اس نے شوکت خانم کا منصوبہ شروع کیا تھا۔
’اس منصوبے کے لیے پیسے بھی جمع کیے۔ عمران خان کو میرا یہ عمل بہت پسند آیا تھا بعد میں عمران خان نے سیاسی جماعت بنائی تو مجھے ایک دوست کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ جمال سے کہو کہ میری پارٹی میں شمولیت اختیار کر لے تو میں نے منع کر دیا اور ہنستے ہوئے انہیں جواب دیا عمران خان کی جماعت میں شامل ہونے سے بہتر ہے میں جماعت اسلامی میں شامل ہو جاؤں۔‘
پاکستانی ڈراما انڈسٹری کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جمال شاہ نے کہا کہ ’پی ٹی وی نے ایک زمانے میں اچھا کام بھی کیا ہے لیکن کچھ عامیانہ پروگرام بھی کیے ہیں۔ مقابلے کی فضا میں پی ٹی وی کو اب بہت محنت کرنا ہو گی۔
’آج کل کے ڈراموں میں شور شرابہ ہے۔ اس ماحول میں اچھا کام بھی گم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ فرق ہے کہ آج کل ماضی کی نسبت زیادہ کام ہو رہا ہے۔ آرٹسٹ کو زیادہ روزگار بھی مل رہا ہے۔ پچھلے چار سالوں میں 35 کے قریب ڈرامے منع کیے ہیں۔ ابھی ایک ڈرامے میں کام کیا جس کا ابتدائی نام ممکن تھا لیکن ڈرامہ بننے کے بعد نام ’تیرے عشق میں‘ کر دیا گیا۔ اگر یہ نام پہلے ہوتا تو شائد میں یہ ڈرامہ نہ کرتا لیکن ناظرین ڈرامہ پسند کر رہے ہیں۔‘
آج کل سنجیدہ موضوعات پر ڈرامے نہیں بن رہے اس پر کیا کہیں گے؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اصل موضوعات پر اگر ڈرامے بنیں گے تو لوگ زیادہ دلچسبی لیں گے کیوں کہ یہ مسئلے ان کی اصل زندگی سے جڑے ہوتے ہیں۔ ساس بہو بھی ایک موضوع ہے اس پر ڈرامے بننا غلط نہیں لیکن مزید حقیقی موضوعات کو بھی دیکھنا چاہیے۔
’پی ٹی وی کے ڈرامے حقیقت سے قریب تھے اس لیے عوام میں مقبول بھی تھے۔ سوپس کی طرح میک اپ زدہ اور مصنوعی پن ان میں نہیں تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے میں ہر عمر کے افراد ہیں سب عمروں کو مدنظر رکھ کر پروگرامز بنانے چاہییں۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی ترقی کیسے؟
پاکستان کی فلم انڈسٹری کے حوالے سے انہوں نے کہا ایک وقت میں فلمیں عامیانہ ہو چکی تھیں جو زوال کا سبب بنیں۔
’میرا ذاتی یہ خیال تھا کہ انڈیا کے ساتھ سینیما کلچر مکس ہونا چاہیے۔ ہماری فلمیں وہاں لگیں اور ان کی فلمیں ہمارے یہاں لگائی جائیں۔ اس کا فائدہ زیادہ ہمیں ہو گا کیوں کہ انڈیا کی سینیما مارکیٹ بہت بڑی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ 25 کروڑ کی آبادی کے ملک میں 150 سینیما ہیں۔ اتنے کم سینیما کے ساتھ آپ فلم انڈسٹری کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں۔ کم از کم چار ہزار سینیما ہونے چاہییں۔ حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ سینیما ہاؤس بنائیں ان کو اس میں ٹیکس کی بھی چھوٹ دی جائے تاکہ یہ انڈسٹری بھی ترقی کرے۔
’ہمارے آرٹسٹسوں کے ساتھ انڈیا میں تحقیرانا رویہ رکھا گیا تھا جس کے بعد ردعمل کے طور پر انڈیا کی فلموں کی یہاں پابندی لگائی گئی۔ اگر انڈیا کے ساتھ جوائنٹ پروڈکشن میں جائیں تو پاکستان فلم انڈسٹری کا بہت فائدہ ہو گا۔ اس سے بھی بڑی سینیما مارکیٹ چائنہ ہے۔ چائینیز فلم میکرز کے ساتھ بھی مل کر پروڈکشن کی جا سکتی ہے۔
’چین میں 80 ہزار سینیما سکرینیں ہیں اور وہ بہت بڑی فلمی مارکیٹ ہے۔ چین پاکستان کی حمایت بھی کرتا ہے، ہماری فلمیں اگر اچھی ہوں گی تو چین کی مارکیٹ میں جگہ بنا سکیں گی۔‘
سینسر بورڈ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر سینسر شپ کے بہت زیادہ حق میں نہیں ہوں۔ سینسر بورڈ آرٹس اینڈ کلچر منسٹری کے ماتحت ہونا چاہیے۔ کلچرڈ لوگ ہونے چاہییں جو سینسر کا فیصلہ کریں۔
چھ ستمبر کو باغ شہدا بنا رہے ہیں
نگران وفاقی وزیر قومی ورثہ و ثقافت جمال شاہ نے بتایا کہ خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 22 شہدا کے مجسمے پانچ ہفتوں میں مکمل کیے ہیں۔
اس کا خیال نو مئی کے بعد آیا کہ ملک کے سب سے بڑے باغ ایف نائن پارک میں جگہ مختص کر کے وہاں انہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے اور یوم دفاع کے موقع پر اس کا افتتاح کیا جائے گا۔