افغانستان کے ساتھ تجارت میں کوئی رکاوٹ نہیں: پاکستان

اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی جانب سے تجارت میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں تاہم پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ’یہ معلومات غلط ہیں۔‘

پاکستان نے ان خبروں اور افغان حکام کے دعوؤں کی تردید کی ہے کہ دوطرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹرید کی راہ میں کسی طرح کی رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں۔

اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کے بیان میں جمعرات کو کہا گیا تھا کہ پاکستان کی طرف سے دوطرفہ تجارت پر کڑی شرائط اور ٹرانزٹ ٹریڈ پر اضافی ٹیکس کے نفاذ سے افغانستان کی کاروباری برادری کو نقصان ہو رہا ہے۔

لیکن ان خبروں سے متعلق پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ سے جب جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ معلومات غلط ہیں۔‘

ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ جاری ہے۔ پاکستان نے جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم موجودہ تجارتی سہولیات بشمول ٹرانزٹ ٹریڈ سہولیات کا غلط استعمال قبول نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اٹھائے گئے اقدامات اور آنے والے دنوں میں کیے جانے والے فیصلے دونوں ملکوں کے درمیان طے طریقہ کار کے مطابق ہی ہوں گے۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین غیرقانونی طور پر مقیم افراد سمیت سکیورٹی صورت حال جیسے معاملات پر تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ رواں ہفتے پاکستان میں اشیا کی غیر قانونی آمدورفت کو روکنے کے لیے حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت درآمد کی جانے والی اشیا پر 10 فیصد پراسیسنگ فیس عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے 200 سے زائد اشیا افغانستان لے جانے پر پابندی عائد کی تھی۔

جمعرات کو چین کے علاقے تبت میں پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان بھی ایک ملاقات ہوئی تھی، جس میں دو طرفہ تعلقات سمیت خطے میں امن و امان کی صورت حال پر بھی گفتگو کی گئی۔

یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب پاکستان میں غیر قانونی مقیم تمام غیر ملکیوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔

افغان پناہ گزینوں اور دو طرفہ تجارتی تعلقات پر جمعرات کو اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سلسلہ وار پوسٹس کیں اور الزام عائد کیا کہ پاکستان کی جانب سے تجارت میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔

ان پیغامات میں افغانستان کے سفارت خانے نے کہا کہ ’پاکستان میں افعان پناہ گزینوں کو درپیش مسائل کے علاوہ دوطرفہ تجارت اور افغان ٹرانزٹ کی راہ میں پاکستان کی وزارت کامرس کی جانب سے سلسلہ وار رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔‘

افغان سفارت خانے کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں مختلف وجوہات کی بنا پر طورخم گیٹ کی بندش اور افغان اشیا کو زیرو پوائنٹس پر روکا گیا، جس سے زیادہ تر اشیا خراب ہو گئیں اور تاجروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔‘

مزید کہا گیا کہ ’پاکستان نے حال ہی میں افعانستان کی ٹرانزٹ کے لیے مختلف مسائل کھڑے کیے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ٹارچز، ٹائر، کاسمیٹکس، ٹیکسٹائل، گھریلو استعمال کے سامان اور دیگر اشیا پر غیرقانونی پابندی عائد کی ہے، جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’اس کے علاوہ بعض ٹرانزٹ اشیا پر 10 فیصد پراسیسنگ فیس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت نے افغان تاجروں سے ٹرانزٹ کارگو پر 100 فیصد بینک ضمانت کا بھی کہا ہے، جو کہ تاجروں کی برداشت سے باہر ہے۔‘

افغان سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ’اسلام آباد میں افغان سفارت خانے نے کئی بار کوشش کی ہے کہ ان سے بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جائے لیکن پاکستان کے وعدوں کے باوجود مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور یہ کام کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’سفارت خانے نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ افغان ٹرانزٹ سیکٹر پر سے یہ رکاوٹیں ہٹائے تاکہ دونوں ممالک کے کمرشل اور دوطرفہ تعلقات پر منفی اثر نہ پڑے۔‘

اس سے قبل چار اکتوبر کو پاکستانی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ چمن سرحد پر افغان فوجی کی جانب سے ’بلااشتعال فائرنگ‘ سے دو پاکستانی شہری جان سے چلے گئے تھے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ اس طرح کے ’غیرذمہ دارانہ‘ اور ’لاپروائی‘ کے عمل کی وجوہات جاننے اور ذمہ دار کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرنے کے لیے افغان حکام سے رابطہ کیا گیا ہے۔

پاکستانی فوج کے مطابق وہ عبوری افغان حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے سکیورٹی اہلکاروں کو کنٹرول کریں اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے اور ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کے لیے نظم و ضبط کا خیال رکھیں۔

غیر قانونی طور پر مقیم افراد کا انخلا

پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن، جن میں افغان باشندے بھی شامل ہیں، کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دے رکھا ہے، جس کے بعد سے افغانستان کی جانب سے اس اعلان کی مذمت کی گئی ہے تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ کارروائی کا ہدف کسی مخصوص ملک کے شہری نہیں ہیں۔

اس حوالے سے افغان سفارت خانے نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی زندگی پولیس کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔

پوسٹ میں الزام عائد کیا گیا: ’بغیر دستاویزات کے علاوہ دستاویزات والے پناہ گزینوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے ؎، خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات بہت تشویش کا باعث ہیں۔‘

یہ اعلان منگل کو نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’یکم نومبر تک وہ (غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی) رضا کارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک چلے جائیں، ورنہ انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد یکم نومبر تک اپنے ملک نہیں جاتے تو ہمارے تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں ڈی پورٹ کریں گے۔‘

پاکستان کے وفاقی نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ملک میں اس سال ہونے والے 24 میں سے 14 خودکش حملوں میں افغان شہری ملوث تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس سربراہ انسپکٹر جنرل اختر حیات خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رواں سال خودکش حملوں کی فرانزک رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ صوبے میں 15 خودکش حملوں میں سے 10 میں افغان شہری ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دیگر حصوں ہونے والے نو خودکش حملوں میں سے بھی اکثریت افغان شہریوں کی ہے۔

افغان طالبان کی حکومت نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو ایکس پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ پاکستان کے سکیورٹی کے مسائل میں افغان پناہ گزین ملوث نہیں ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ سلوک ناقابل قبول ہے، اس حوالے سے انہیں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ پاکستان کے سکیورٹی مسائل میں افغان پناہ گزینوں کا کوئی ہاتھ نہیں۔‘

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا تھا کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’یکم نومبر کے بعد سے کوئی بھی شخص، کسی بھی ملک کا رہنے والا پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر ہمارے ملک میں داخل نہیں ہو گا۔‘

پاکستانی حکومت کے مطابق ملک میں اس وقت 17 لاکھ سے زائد افغان بغیر قانونی دستاویزات کے ملک میں مقیم ہیں جب کہ لگ بھگ 14 لاکھ ایسے ہیں جنہیں قیام کے لیے پروف آف رجسٹریشن ’پی او آر‘ کارڈز جاری کیے گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا