’غزہ نسل کشی کا مذاق اڑایا گیا‘:فیشن برینڈ زارا کے بائیکاٹ کا اعلان

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ہسپانوی برینڈ زارا کے اس فوٹو شوٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں سفید کپڑے میں ڈھانپے ہوئے ایک پتلے کا استعمال کیا گیا۔

تین دسمبر، 2023 کی اس تصویر میں غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارت کے ملبے پر کھڑے شہری تباہ حال عمارتوں کو دیکھ رہے ہیں(اے ایف پی)

ہسپانوی فیشن برینڈ زارا کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ اس کی ایک تازہ اشتہاری مہم ہے جسے صارفین نے ’غزہ میں ہونے والی تباہی‘ کے ساتھ مماثلت قرار دیا ہے۔

ایکس پر ’بائیکاٹ زارا‘ کا ٹرینڈ بھی گذشتہ روز سے ٹاپ پر ہے جس پر ہزاروں ٹویٹ کی جا چکی ہیں۔

اس مخصوص کمپین کا نام ’ دی جیکٹ‘ رکھا گیا ہے جس میں ماڈل کرسٹین میک مینامی سفید کپڑے میں ڈھانپے ہوئے ایک پتلے کو اٹھائے کھڑی ہیں، جبکہ کچھ اور تصاویر میں ایسے مجسمے دکھائے گئے ہیں جن کے اعضا غائب ہیں اور آس پاس ملبے کے ڈھیر بھی موجود ہیں۔ 

زارا کی ان تمام پوسٹس کے نیچے سیکڑوں لوگ برینڈ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، اور فلسطینی پرچم لگا کر یہ سوال کر رہے ہیں کہ ’فن‘ کے عنوان سے قتل عام کی حمایت کرنا کتنا قابل نفرت ہے؟ 

ان تصاویر میں سوشل میڈیا صارفین کو غزہ میں ہونے والے مظالم کی جھلک دکھائی دی اور انہوں نے برینڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے بائیکاٹ کا اعلان شروع کر دیا۔

امریکی ڈاکٹر اور انفلونسر نور امرا نے اپنے انسٹاگرام پر ایک طویل پوسٹ کے ذریعے زارا کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ ماننے سے انکار کرتی ہوں کہ زارا جیسی عالمی فرم کی پی آر ٹیم نے غزہ میں جاری نسل کشی کے دوران اپنی اس نئی مہم پر غور نہیں کیا ہو گا۔‘ 

انہوں نے غزہ کی کچھ تصاویر بھی زارا کی تشہری تصاویر کے ساتھ جوڑ کر شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’غزہ سے نکلنے والی کفن پوش لاشوں کی تباہ کن تصویریں ہم سب نے دیکھی ہیں یہ صرف ایک مثال ہے لیکن ہزاروں اور بھی ہیں یہ واضح طور پر فلسطینیوں کا مذاق اڑایا گیا ہے اور وہ (زارا) بالکل جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں!‘ 
 

ڈیلاس میں مقیم ایک ڈاکٹر اور سوشل میڈیا انفلونسر حنا چیمہ نے لکھا کہ ’واضح طور پر نسل کشی کا مذاق اڑایا گیا ہے کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ اتنے مشہور ہیں کہ آپ کو کچھ نہیں کیا جا سکتا‘ 

 لیکن انہوں نے لکھا کہ ’آپ نے غلطی کر دی اور آپ کے لیے سب ختم ہو گا۔‘

 اس بائیکاٹ میں پاکستانی اداکارہ اشنا شاہ بھی شامل ہیں، انہوں نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا ہم زارا کے موجودہ کپڑے پھینک دیں ہیں یا صرف نئے کپڑے نہ خریدیں؟‘

 انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ اب وہ کبھی زارا سے شاپنگ نہیں کریں گی۔ 

عمیر نامی صارف نے لکھا کہ ’زارا نے مسلمانوں اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کی جانے والی نسل کشی کا مذاق اڑایا ہے۔‘

عمیر نے یہ بھی لکھا کہ ’ان تصاویر میں باڈیز کو سفید لباس میں لپٹے دکھایا گیا ہے جو مسلمانوں کی تدفین کا طریقہ ہے، جبکہ اس مہم میں چٹانیں، ملبہ، اور گتے کا کٹ آؤٹ بھی دکھایا گیا ہے جو فلسطین کے نقشے سے ملتا ہے۔‘

ناومی نامی صارف نے زارا کی تشہیری مہم کی پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ آپ کے نقصان کی شروعات ہے۔ تم میرے پیسوں سے اور میرے سارے گھر والوں کے پیسوں سے بچوں کو نہیں مار سکتے۔‘

خدیجہ نامی صارف نے ’فلسطینیوں کے درد کو منافع کے لیے استعمال کرنے پر زارا کی تشہری مہم‘ کو شرمناک قرار دیا اور کہا کہ ’پوسٹس کو بعد میں ڈیلیٹ کرنا نقصان کی نشاندہی کر رہا ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’یہ تصاویر کوئی فنکارانہ تخلیق بھی نہیں لگتیں، واضح طور پر یہ آپ کے گھناؤنے ایجنڈے اور نسل کشی کے رجحان کو معمول پر لانے کا ایک سٹیج شوٹ ہے۔‘

زارا کی ٹیم کی جانب سے ابھی تک اس تنقید پر کوئی وضاحتی بیان نہیں دیا گیا ہے۔

تاہم، اشتہاری مہم کی سب سے متنازعہ تصویر کو جس میں میک مینامی کو سفید چادر میں لپٹی ہوئی ایک ’باڈی‘ پکڑے ہوئے دکھایا گیا تھا انسٹاگرام اور ایکس سے ہٹا دیا گیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ