اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی تجویز زیر غور نہیں: ترجمان دفتر خارجہ

ممتاز زہرہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ غزہ کی موجودہ صورت حال پر پاکستان کو بہت تشویش ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ 21 دسمبر 2023 کو اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے (انڈپینڈنٹ اردو)

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال پر کہا کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی تعلقات قائم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور ہے۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے جمعرات کو گفتگو میں کہا کہ غزہ کی موجودہ صورت حال پر پاکستان کو بہت تشویش ہے۔

ان کے بقول: ’وہاں فلسطینی عوام کا قتل عام بند ہونا چاہیے اور اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ختم ہونا چاہیے۔ پاکستان نے ہر فورم پر اپنا اصولی موقف دیا ہے کہ فلسطینی عوام کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔ فلسطین کی خود مختار ریاست ہونی چاہیے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو اور یہی اقوام متحدہ قوانین کے مطابق فلسطینی عوام کا حق ہے۔‘

اس سے قبل نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک انٹرویو میں فلسطین کے ’دو ریاستی‘ حل پر قائد اعظم کے موقف سے ’روگردانی‘ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے ذمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔‘

’ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن کا سب سے بڑا نتیجہ دہشت گردی میں کمی ہوگا‘

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف ایکشن کا سب سے بڑا نتیجہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوگا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان سے سوال کیا کہ ’کیا کابل نے باضابطہ طور پر اسلام آباد کو اس حوالے سے آگاہ کیا ہے یا پاکستان نے افغان حکومت سے اس بارے میں تفصیلات مانگی ہیں؟‘

اس کے جواب میں ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ ’اس طرح کی خبریں ہم نے اخباروں میں پڑھی ہیں۔

ہم یہی زور دیتے رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں ایکشن ہونا چاہیے۔ جب ایکشن ہوگا تو اس کے نتائج بھی نظر آئیں گے اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی اس کا سب سے بڑا نتیجہ ہوگا۔‘

ممتاز زہرہ بلوچ نے اس حوالے سے بتایا: ’نگران افغان حکومت سے ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایکشن کی امید کرتے ہیں تاکہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استمعال نہ ہو۔‘

حالیہ دنوں افغانستان حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے تقریبا 40 اراکین کو ملک بھر سے گرفتار کرنے کا دعویٰ سامنے آیا ہے۔

افغانستان حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبد المتین قانع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ گذشتہ ایک سال میں پورے ملک سے ٹی ٹی پی کے 35 سے 40 اراکین جبکہ داعش اراکین بھی بڑی تعداد میں گرفتار کیے گئے ہیں، اور ان اراکین سے جیلوں میں تفتیش جاری ہے۔

تاہم افغان حکومت نے گرفتار کیے گئے افراد کی تاحال شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔

ترجمان افغان وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ ’افغانستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور ملک کی زمین پڑوسی ممالک سمیت کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل پاکستان کی حکومت طالبان حکومت سے کئی مرتبہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی اور ان کے اراکین کی حوالگی کا مطالبہ کر چکی ہے۔

گذشتہ ماہ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں، افغان طالبان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔

’اب یہ فیصلہ افغان طالبان کو کرنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ہمارے حوالے کرنا ہے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرنی ہے۔‘

مولانا فضل الرحمٰن کا دورہ افغانستان

ترجمان وزارت خارجہ نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے افغانستان دورے کی دعوت سے متعلق کہا ہے: ’افغانستان یا کوئی بھی ملک پرائیوٹ فرد کو دعوت دیتا ہے تو اس کا حکومت پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی پاکستانی شہری کسی ملک میں جانا چاہتا ہے اور اگر انہیں ویزا ملتا ہے تو یہ ان کا حق ہے۔ پاکستانی حکومت صرف سرکاری افسران سے متعلق اپنی رائے دے گی۔

’ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان و افغانستان کا ڈائیلاگ یا مواصلات کا چینل موجود ہے۔ ہمارے سفارت خانے ایک دوسرے سے بات کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔‘

ترجمان نگران افغان حکومت ذبیح اللہ مجاہد نے تین روز قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو افغانستان آنے کی دعوت دی گئی ہے تاکہ وہ ’پاکستان اور اس کی عوام کے حوالے سے افغان عوام اور امارت اسلامیہ کے موقف سے آگاہی حاصل کریں، دورہ کر کے وہ پاکستانی عوام کو بتائیں کہ ہم پاکستان میں بدامنی نہیں چاہتے۔‘

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’جب ایکشن ہوگا تو اس کے نتائج بھی نظر آئیں گے اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی اس کا سب سے بڑا نتیجہ ہوگا۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان