2023 بھی پاکستانی کرکٹ کے لیے ناخوشگوار یادیں لیے رخصت

پاکستان رواں سال دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح کرکٹ میں بھی کچھ خاص کارکردگی نہیں دکھا سکا۔

26 دسمبر، 2023 کی اس تصویر میں پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود ساتھی کھلاڑیوں محمد رضوان اور عبداللہ شفیق کے ہمراہ میلبرن میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے دوران(اے ایف پی)

رواں سال 2023 کا آخری سورج جب غروب ہو رہا ہوگا تو یہ سال بھی پاکستان کرکٹ کے لیے کچھ ناخوشگوار یادیں لیے رخصت ہو گا۔

 کیونکہ پاکستان دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح کرکٹ میں بھی کچھ خاص کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ 

سال کا اختتام آسٹریلیا سے مسلسل دوسری شکست کے داغ اور صدمے سے ہو رہا ہے۔ 

کرکٹ پاکستان کا غیر اعلانیہ سرکاری اور عوامی کھیل ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت کھیل کا مطلب ہی کرکٹ کو سمجھتی ہے۔

اسی وجہ سے کرکٹ میں عوامی دلچسپی کے باعث کرکٹ کے منتظم ادارے پی سی بی پر سب زیادہ بات بھی ہوتی ہے اور تنقید بھی۔

شاید یہ ملک کا واحد نفع بخش ادارہ ہے لیکن اپنی بھرپور آمدنی کے ساتھ اس کے انداز بھی شاہانہ ہیں۔ 

قومی ٹیم کی کارکردگی

اگر دیکھا جائے تو اس سال قومی ٹیم کی کارکردگی ملی جلی رہی۔

پاکستان نے سال کا آغاز نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ سے کیا تھا۔ پاکستان اپنی ہی سرزمین پر ایک موزوں پچ نہ بنا سکا جس ٹیسٹ میں باآسانی جیت ہونی چاہیے تھی وہ سرفراز احمد کی سنچری کی بدولت بمشکل ڈرا کیا۔

بیٹنگ کی زبوں حالی کا حال یہ تھا کہ ابراراحمد اور نسیم شاہ کو آخری پانچ اوورز اندھیرے میں کھیلنا پڑے کہ شکست سے بچ سکیں۔

نیوزی لینڈ نے ٹیسٹ سیریز کے اختتام پر تین ایک روزہ میچوں پر مشتمل سیریز بھی کھیلی   پہلا میچ تو پاکستان جیت گیا لیکن اگلے دونوں میچ پاکستان ہار گیا۔

اس سیریز میں نیوزی لینڈ نے ماڈرن کرکٹ کا اعلی نمونہ پیش کیا۔

نیوزی لینڈ ٹیم دو ماہ کے بعد اپریل میں دوبارہ ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنے پاکستان آئی تو اس کے نو اہم کھلاڑی نہیں آئے۔

 آئی پی ایل میں مصروفیت کے باعث نیوزی لینڈ کی بی ٹیم سے سیریز میں جیت تو آسان رہی لیکن کرکٹ کے معیار پر بات کرنے والوں نے پاکستان کی اس جیت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

پاکستان نے رواں برس جولائی میں سری لنکا کا دورہ کیا اور دو ٹیسٹ میچز کھیلے دونوں میچوں میں یکطرفہ جیت حصہ میں آئی۔

 اس جیت نے ٹیم کے حوصلے اور بورڈ کے ریکارڈ بکس تو بھر دیے لیکن اس سیریز کی جیت سے ٹیم کی اہلیت نہیں بڑھ سکی کیونکہ سری لنکا کی ٹیم اپنا روایتی کھیل نہ پیش کرسکی۔

باہمی چپقلشوں اور گروہ بندی کے باعث سری لنکا کی ٹیم اس سیریز میں متحد نظر نہیں آئی۔

ایشیا کپ

پاکستان کو پہلی زک ایشیا کپ میں پہنچی جب ٹیم نیپال اور بنگلہ دیش کو پاکستان میں بڑے مارجن سے ہرا کر ٹورنامنٹ کا دوسرا مرحلہ کھیلنے سری لنکا پہنچی تو اس کی قلعی کھل گئی۔

نیپال کے خلاف رنز کا انبار لگانے والی ٹیم کو افغانستان کے خلاف بمشکل آخری گیند پر جیت مل سکی جبکہ انڈیا اور سری لنکا نے پاکستان کو باآسانی شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا۔

یہ پہلا الارم تھا۔ جسے ٹیم مینجمنٹ نے نظر انداز کر دیا اور مکمل نتیجہ ورلڈکپ میں آ گیا۔

ورلڈ کپ 2023

سال رواں ورلڈکپ کے لیے پاکستان سرفہرست ٹیموں میں شامل تھی اکثر ماہرین کے نزدیک پاکستان فائنلسٹ تھا لیکن پاکستان ساری توقعات کے برعکس فائنل تو کجا سیمی فائنل میں بھی نہیں پہنچ سکا۔

 ٹیم کی بیٹنگ بولنگ غیر معیاری رہی اور افغانستان جیسی ٹیم سے شکست نے اسے نچلے درجے کی ٹیموں میں لاکھڑا کیا۔

اگرچہ انگلینڈ کی کارکردگی بھی خراب رہی لیکن برصغیر کی پچوں پر پاکستانی بلے بازوں کا بکھر جانا سمجھ سے بالاتر رہا۔

بولنگ بھی اتنی متاثر کن نہیں رہی۔ شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، شاداب خان اور اسامہ میر نے مایوس کیا ان کی کمزور بولنگ کے باعث پاکستان اہم میچ ہار گیا۔

پاکستان صرف نیدرلینڈز اور سری لنکا سے مناسب طریقہ سے جیت سکا جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف جیت بارش کے مرہون منت تھی۔

آسٹریلیا سے مسلسل شکست

آسٹریلیا کادورہ ابھی جاری ہے اور سڈنی ٹیسٹ باقی ہے لیکن پاکستان اپنی روایت کے مطابق پرتھ اور میلبرن میں کھیلے جانے والے دونوں ٹیست ہار چکا ہے۔

 میلبرن ٹیسٹ میں پاکستان کئی مرحلوں میں آسٹریلیا کے اوپر حاوی نظر آیا لیکن میزبان ٹیم نے صبر کے ساتھ پاکستان بولنگ اور بیٹنگ کا تعاقب کیا اور اپنے اعصاب بحال رکھے۔

جبکہ پاکستان نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کے باعث ہدف کا تعاقب نہ کرسکا۔

آسٹریلیا کی طرف سے پیٹ کمنز نے شاندار بولنگ کی لیکن آسان پچ پر 317 کا ہدف پورا کرنا چاہئیے تھا۔

ایک بار پھر پاکستانی بیٹنگ نے دھوکہ دیا اور میلبرن ٹیسٹ فتح کے قریب پہنچ کر بھی ہار دیا۔

افغانستان سے شکست

پاکستان نے سال رواں ایک ٹی ٹوئنٹی سیریز افغانستان سے متحدہ عرب امارات میں کھیلی۔ بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی کی غیر موجودگی میں ٹیم کو سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس شکست نے پاکستانی ٹیلنٹ پر سوال اٹھا دیے۔

بابر اعظم کے لیے بدقسمت سال

آئی سی سی رینکنگ میں پہلی اور کبھی دوسری پوزیشن ہونے کے باوجود بابر اعظم کلی طور پر ناکام رہے وہ ٹیسٹ کرکٹ میں نو اننگز میں صرف 204 رنز بنا سکے۔

 جس میں کوئی سنیچری یا  نصف سینچری شامل نہیں تھی۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے کوئی ٹیسٹ نہیں ہارا لیکن دو جیت کے باوجود انھیں فارغ کردیا گیا۔

انھوں نے ایک روزہ میچوں میں اس سال 25 میچوں 1065 رنز بنائے جن میں دو سینچریاں اور دس نصف سینچری شامل تھیں۔

لیکن وہ ورلڈکپ جیسے اہم ٹورنامنٹ میں کوئی سینچری نہ بنا سکے جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔

ان کی سینچری نہ بننے کے باعث پاکستان کی بیٹنگ بجھی بجھی رہی۔ اور ان کی اپنی کارکردگی گرتی رہی ۔

ٹی ٹوئنٹی میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے۔ 17 میچوں میں 446 رنز ایک سینچری کے ساتھ اپنا اثر قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔

پاکستان کی بیٹنگ

سال رواں میں پاکستان کی بیٹنگ میں سعود شکیل پانچ میچز میں 537 رنز بنا کر سرفہرست رہے جس میں ان کی ایک ڈبل سینچری بھی شامل تھی جو سری لنکا کے خلاف بنی۔

جبکہ ایک روزہ کرکٹ میں بابر کے بعد محمد رضوان نے 1023 رنز بنائے جس میں ایک سینچری شامل تھی۔

پاکستان کی بیٹنگ نے ورلڈکپ کے علاوہ اچھی کارکردگی دکھائی۔ لیکن پاکستانی بولنگ متاثر نہ کر سکی۔

پاکستان کی بولنگ سال رواں اگرچہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے خلاف کامیاب رہی لیکن ورلڈکپ ایشیا کپ میں غیر معیاری رہی۔

آسٹریلیا کے دورے میں میلبرن ٹیسٹ میں بولنگ عمدہ رہی اور بولرز کی محنت نے جیت کے قریب پہنچا دیا لیکن بیٹنگ ساتھ نہ دے سکی۔

2023 میں پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں ابرار احمد نے سب سے زیادہ 15 وکٹیں لیں جبکہ ایک روزہ میچوں میں شاہین شاہ آفریدی 42 وکٹ کے ساتھ سرفہرست رہے۔

کپتان کی تبدیلی

پی سی بی نے ورلڈکپ میں بدترین کارکردگی کے بعد بابر اعظم کو کپتانی سے فارغ کرکے شان مسعود کو کپتان مقرر کردیا۔

 شان کے لیے اولین سیریز آسٹریلیا میں لوہے کے چنے ثابت ہوئی ہے۔

 ایک کمزور اور غیر معیاری ٹیم کی کپتانی شان مسعود کے لیے سخت امتحان ہے اور وہ دو ٹیسٹ ہار چکے ہیں لیکن ان کی مثبت انداز کرکٹ نے سب کو متاثر کیا ہے اور شکست کے باوجود ماہرین انھیں قابل کپتان قرار دے رہے ہیں۔

انضمام الحق سکینڈل

پی سی بی کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک چیف سیلکٹر کے ایک پلئیرز پروموشن مارکیٹنگ کمپنی کے حصہ دار بننے کے انکشاف نے بورڈ کی اہم معاملات میں چشم پوشی کو عیاں کر دیا۔

انضمام الحق جو چیف سیلکٹر تھے بیک وقت وہ ایک ایسی کمپنی کے حصہ دار بھی ہیں جو کھلاڑیوں سے ان کی مارکیٹنگ کے حقوق رکھتی ہے اور کمیشن لیتی ہے۔

 یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے چیف سیلکٹر  کو کھلاڑیوں کو منتخب کرنے کا عمل غیر شفاف ہوجاتا ہے۔

 بورڈ نے اس سکینڈل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جو داخل دفتر ہو گئی۔

بورڈ کے معاملات سدھر نہ سکے

 2023 میں پی سی بی کے معاملات سدھر نہ سکے۔ گذشتہ سال کے اواخر میں سابقہ چئیرمین رمیز راجہ کو جس طرح نکالا گیا اور نجم سیٹھی ایک مینیجمنٹ کمیٹی کے چئیرمین بنے تھے اسی طرح سال کے وسط میں سیاسی دباؤ پر ذکا اشرف چئیرمین بن گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 دونوں کو وزیر اعظم کی طرف سے نئے الیکشن کرانے کی ذمہ داری دی گئی تھی لیکن دونوں نے الیکشن کے بجائے بورڈ کو اپنی جاگیر سمجھ کر فیصلے کرنے شروع کردیے۔

اگرچہ آئی سی سی کی رکنیت کی بنیاد ہی ایک باقاعدہ اور حکومتی دخل اندازی سے آزاد بورڈ ہے لیکن آئی سی سی نے بھی آنکھ بند کیے رکھی۔

بورڈ تادم تحریر ایڈھاک بنیادوں پر چل رہا ہے۔ اگرچہ وزارت صوبائی رابطہ نے بورڈ کو متنبہ کیا ہے کہ روزمرہ کے معاملات کے علاوہ کوئی فیصلے نہ کیے جائیں لیکن بورڈ چئیرمین نے اس ہدایت کو ہوا میں اڑا دیا۔

ڈومیسٹک کرکٹ

سال رواں میں پی ایس ایل سب سے اہم ایونٹ تھا۔

لاہور قلندرز نے دوسری مرتبہ ٹائٹل جیت لیا تھا تاہم انٹرنیشنل کھلاڑیوں میں بڑے نام نہ ہونے پر پی ایس ایل کی انتظامیہ تنقید کی زد پر رہی۔

قائد اعظم ٹرافی ملک کا سب سے اہم ڈومیسٹک ایونٹ ہوتا ہے جو کراچی نے سرفراز احمد کی قیادت میں جیت لیا۔

 اسد شفیق نے سب سے زیادہ رنز بنا کر کراچی میں جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ کراچی نے اسد شفیق کی قیادت میں نیشنل ٹی 20 کپ بھی جیتا۔ اس طرح کراچی اس سال سرفہرست رہا۔

ویمنز کرکٹ

پاکستان ویمنز ٹیم کی کارکردگی اس سال بہت اچھی نہیں رہی۔

 ندا ڈار نئی کپتان مقرر ہوئیں۔ پاکستان نے 17 ٹی 20 میچ کھیلے جن میں سات جیتے اور دس ہار دیے۔

 لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ پاکستان ویمنز نے پہلی مرتبہ پاکستان سے باہر نیوزی لینڈ سے سیریز جیتی تین میچوں کی سیریز میں دو پاکستان جیت گیا۔

اسی طرح پہلی دفعہ نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میچ بھی جیتا۔

ندا ڈار، ثنا فاطمہ اور بسمہ معروف نمایاں کھلاڑی رہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ