امریکہ: سکھوں کا انڈیا سے آزادی کے لیے ایک اور ’خالصتان‘ ریفرنڈم

امریکہ میں ہونے والا یہ ریفرنڈم دنیا بھر میں ہونے والے ان ریفرنڈمز کا حصہ ہے جن کا مقصد انڈیا سے آزاد پنجاب کے لیے پنجابیوں کو متحرک کرنا ہے۔

امریکہ میں سکھ برادری نے 28 جنوری کو ریاست کیلی فورنیا میں انڈیا سے آزاد پنجاب اور ’خالصتان‘ کے قیام کے لیے ریفرنڈم منعقد کیا۔

امریکہ میں ہونے والا یہ ریفرنڈم دنیا بھر میں ان ریفرنڈمز کا حصہ ہے جن کا مقصد انڈیا سے آزاد پنجاب کے لیے پنجابیوں کو متحرک کرنا ہے اور اس ریفرنڈم کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق آگے بڑھانا ہے۔

امریکہ کے تمام شہروں اور ریاستوں میں سب سے زیادہ سکھ آباد کار کیلی فورنیا میں رہتے ہیں۔

صرف سان فرانسسکو بشمول بے ایریا میں سکھوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خالصتان کے حامی سکھوں کے نمائندہ گروپ سکھ فار جسٹس نے امریکہ میں انڈیا سے ’آزاد پنجاب‘ یا ’خالصتان‘ بنانے کے لیے امریکہ میں پہلا ریفرنڈم یہیں منعقد کیا۔

بحرالکاہل کے کنارے آباد شہر سان فرانسسکو نے یوں تو امریکہ سے اٹھنے والی متعدد سماجی تحریکوں کو جنم دیا لیکن کچھ روز سے یہاں ریفرنڈم سے جڑی گہما گہمی دیکھنے میں آ رہی تھی جس کی گونج سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی نظر آئی۔

موسم سرد ہونے کے باوجود 28 تاریخ کی صبح سے ہی امریکہ بھر سے آئے سکھ بڑی تعداد میں سوک سینٹر پلازہ پہنچنے لگے۔

ریفرنڈم کے انعقاد سے پہلے پنجاب ریفرنڈم کمیشن نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ کینیڈا میں 2022 اور 2023 ایسے ہی دو ریفرنڈم ہو چکے ہیں۔

کینیڈا میں رہنے والے علیحدگی پسند تحریک کے لیڈر ہردیپ سنگھ نجر کا قتل جون 2023 میں برٹش کولمبیا میں دوسرے ریفرنڈم کے انعقاد سے تین ماہ پہلے ہوا تھا جس کا الزام کینیڈین حکومت نے انڈیا کے خفیہ اداروں پر لگایا۔

 لیکن ان کی جماعت کا کہنا ہے کہ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی جماعت کے امریکہ میں رہنے والے لیڈر گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کے پلان کا الزام بھی 2023 میں امریکی حکومت نے انڈین حکومت پر لگایا تھا۔

 انڈین حکومت نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا جب کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا مسئلہ اب بھی انڈیا اور کینیڈا کےدرمیان کشیدگی کا سبب ہے۔

ایسے میں گرپتونت سنگھ نے جب امریکہ میں ریفرنڈم کروانےکا اعلان کیا تو بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی کیونکہ پتونت سنگھ پنوں کا خود بھی یہی کہنا ہے کہ ان کی جان کو انڈین ایجنسیوں سے خطرہ ہے۔

انڈین وزارت داخلہ نے 2020 میں گرپتونت سنگھ پنوں کو علیحدگی پسند ہونےکی وجہ سے دہشت گرد قرار دیا تھا۔

ان پر ہر دیپ سنگھ نجر کی طرح انڈیا میں کئی سنگین مقدمات درج ہیں لیکن ان مقدمات کو آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے گرپتونت سنگھ کا کہنا تھا کہ انڈین پنجاب میں سکھوں کو 1984 کے آپریشن بلیو سٹار سے لے کر آج تک تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق اس کی وجہ سے لاکھوں سکھ نہ صرف پنجاب بلکہ انڈیا چھوڑنے پر مجبور ہوئے بلکہ ان میں جھوٹے مقدمات کا اندراج اور ماوراے عدالت قتل شامل ہیں۔

آپریشن بلیو سٹار ایک فوجی آپریشن تھا جو اس وقت کی انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور حکومت میں ہوا۔

آپریشن میں خالصتان تحریک کے رہنماؤں کو پکڑنا مقصود تھا جو مبینہ طور پر سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل میں پناہ لیے ہوئے تھے۔

آپریشن کے چند ماہ کے اندر اندرا گاندھی کے اپنے ہی باڈی گارڈ نے انہیں قتل کر دیا تھا جس کے بعد انڈیا میں ہندو سکھ فسادات لمبےعرصے تک چلے۔

ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کے لیے قریبی شہر سیکری مینٹو سے آئے گرمان سنگھ نے بتایا کہ آج سے 20 سال پہلے وہ اس وقت امریکہ منتقل ہو گئے تھے جب ان کے بھائی کو ریاستی اداروں کی حراست میں قتل کر دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ وآپس جانا تو چاہتے ہیں لیکن انڈیا نہیں بلکہ خالصتان۔

کیا ریفرنڈم واقعی سکھ پنجابیوں کو اندیا سے آزادی دلا سکتا ہے؟

اس سوال کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں لیکن ریفرنڈم کے شرکا کا کہنا ہے کہ وہ خالصتان کے حصول کے لیے تمام جمہوری طریقے اختیار کرنا چاہتے ہیں اور ریفرنڈمز اسی عمل کا حصہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گروپتونت سنگھ پنوں کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’انڈین خفیہ ادارے جمہوری طریقوں سے خوف زدہ ہیں کیونکہ وہ دنیا کو بھی جواب دہ ہیں۔

’یہی وجہ ہے کہ خالصتانی تحریک کے قائدین کو کینیڈا اور امریکہ میں بھی خاموش کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ میں بھی ایک آزاد شہری کی طرح بلا خوف نہیں گھوم سکتے لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ریفرنڈم منتظمین کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم میں 18 سال سے زائد عمر کے تمام سکھ حصہ لے سکتے ہیں۔

سوک ہال کے باہر جہاں خالصتانی پیلے جھںڈے جگہ جگہ دیکھے جا سکتے تھے، وہیں ’واے گرو‘ کے نعرے بھی سنائی دے رہے تھے جب کہ رضاکار مرد و خواتین کی تعداد بھی سینکڑوں میں تھی۔

انہی افراد میں نریندر کور بھی تھیں جن کی عمر 90 سال کے لگھ بھگ ہے اور وہ چل نہیں سکتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی گزار چکی ہیں اور ان کا خاندان 1980 کی دہائی میں انڈین سکیورٹی اداردوں کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھا چکا اسی لے وہ چاہتی ہیں کہ ان کی اگلی نسلیں آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔‘

 ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کے لیے ان کا پوتا انہیں ویل چیئر میں یہاں لایا تھا۔

ریفرنڈم کے تمام راؤنڈ ختم ہونے کے بعد شرکا کا مطالبہ تھا کہ یہی ریفرنڈم انڈین سرزمین پر کروانے کے لیے انڈیا پر زور ڈالا جائے گا جس میں ووٹنگ کے لیے سکھ ہونا نہیں بلکہ صرف پنجابی ہونا ضروری ہو گا۔

ریفرنڈم کا حتمی نتیجہ دیگر ممالک میں ہونے والے ریفرنڈمز کے نتائج کو اکٹھا کر کہ ایک ہی بار کیا جائے گا البتہ اگلا ریفرنڈم کیلی فورنیا میں ہی منعقد کیا جائے گا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا