پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت تو بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں لیکن ان کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو بھی ان کے سائے میں وقتا فوقتا سیاسی سرگرمیاں کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کے سیاسی عزائم بھی اب واضح ہوتہ جا رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابقہ رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی نے کہا ہے کہ آصفہ بھٹو شائستہ اور سنجیدہ طعبیت کی مالک ہیں، جو سیاسی جلوس اور ریلیوں میں لکھی ہوئی تقریر کی بجائے عوام کو دل سے مخاطب ہو کر بولتی ہیں، اس لیے سسنے والے سحر زدہ ہو جاتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شرمیلا فاروقی نے کہا: ’آصفہ بھٹو انتہائی فوکسڈ شخصیت کی مالک ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ زندگی میں انہیں کیا کرنا ہے۔ ان سے بات کرتے ہوئے ایسا لگتا جیسے وہ ایک نوجوان لڑکی نہیں بلکہ منجھی ہوئی خاتون ہیں۔ آصفہ اپنی ماں کی طرح انتہائی سلجھی ہوئی شخصیت کی مالک ہیں۔
سیاسی جلسوں میں بھی اکثر سفید دوپٹے کے ساتھ وہ کئی لوگوں کے مطابق ناصرف ماں کی طرح دکھتی ہیں بلکہ سنائی بھی دیتی ہیں۔
’کامیاب پولیو مہم چلانے کے علاوہ آصفہ بھٹو نے ہمیشہ جانوروں کے حقوق، خواتین اور انسانی حقوق کی بات کی۔ پولیو مہم ہو یا کوئی بھی دوسرا مقصد آصفہ بھٹو ہمیشہ دلجوئی اور انتہائی دلچسپی سے کام کرتی ہیں۔
’پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکن کی حیثت سے میں نے دیکھا ہے کہ آصفہ ہر ایک بات غور سے سنتی ہیں۔ مجمع میں بھی انہیں کوئی اشارہ کر دے تو آصفہ انہیں بلا کر ضرور بات سنتی ہیں۔ وہ ہر اچھے کام کرنے والے سے خود رابطہ کرکے ان کی تعریف کرتی ہیں۔‘
تین فروری 1993 کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور سابو صدر آصف علی زرداری کے گھر میں پیدا ہونے والی آصفہ بھٹو اپنے بہن بھائیوں (بلاول بھٹو زرداری اور بختاور بھٹو زرداری) سے چھوٹی ہیں۔ بختاور بھٹو زرداری نے کوئی سیاسی اہداف واضح اب تک نہیں کیے اور ایک گھریلو زندگی کو آج کل ترجعی دے رہی ہیں۔
شرمیلا فاروقی کے مطابق آصفہ بھٹو کی والدہ چھوٹی عمر میں الگ ہو گئیں، اس لیے آصفہ کو بچوں کی تکلیف کا ذاتی طور پر احساس ہے۔ جس طرح فاطمہ جناح نے اپنے بھائی محمد علی جناح کا ان کی سیاست میں ساتھ دیا، بالکل اسی طرح آصفہ بھٹو اپنے بھائی بلاول بھٹو کے ساتھ کھڑی ہیں اور انتخابات میں ان کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔
’آصفہ بھٹو کو یہ عبور حاصل ہے کہ وہ سیاسی جلسوں میں مجمع کو کس طرح متوجہ رکھیں اور انہیں اس فن میں مہارت حاصل ہے۔‘
کیا آصفہ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی سیاسی تربیت بھی کی جا رہی ہے؟ کے جواب میں شرمیلا فاروقی نے کہا : ’مجھے نہیں معلوم کہ آصفہ بھٹو کی پارٹی کی جانب سے باضابطہ تربیت کی جا رہی ہے مگر آصفہ بھٹو کو سیاسی تربیت کی کیا ضرورت۔ وہ جس گھرانے میں پیدا ہوئیں اس کی سیاسی تربیت کون کر سکتا ہے۔
’آصفہ بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم رہے۔ ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم رہیں۔ ان کے والد آصف علی زرداری صدرِ مملکت رہے۔ انہیں کئی سال بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی قربت حاصل رہی۔ مجھے نہیں لگتا ہے انہیں کوئی سیاسی تربیت دے سکتا ہے۔‘
آصفہ بھٹو زرداری
آصفہ بھٹو، جو تین بار رکن قومی اسمبلی رہنے والے سیاست دان حاکم علی زرداری کی پوتی بھی ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی ایرانی نژاد اہلیہ نصرت بھٹو کی نواسی، میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی بھانجی ہیں۔
ان کا نام ان کے والد آصف علی زرداری نے اپنے نام کی مناسبت سے آصفہ رکھا، جب کہ بے نظیر بھٹو کے ذہن میں ان کے لیے کوئی دوسرا نام تھا۔
آصفہ بھٹو نے برطانیہ میں واقع 1865 میں قائم ہونے والی آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی (سابق آکسفورڈ سکول آف آرٹ) سے سیاسیات اور سوشیالوجی میں بیچلرز ڈگری حاصل کی۔ آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی کا شمار دنیا کے 50 معروف جامعات میں ہوتا ہے۔
آصفہ بھٹو زرداری نے جولائی 2016 میں یونیورسٹی کالج لندن سے گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈوپلپمنٹ میں ماسٹرز کیا۔
سماجی خدمات
نوّے کی دہائی میں جب پاکستان میں پولیو کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوئے اور حکومت پاکستان نے بچوں کو پولیو سے بچانے کے لیے مہم کا آغاز کیا تو پاکستان میں سب سے پہلے پولیو ویکسین پینے والی بچی آصفہ بھٹو تھیں۔
انہیں ان کی والدہ اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے ہاتھوں سے پولیو ویکسین کے قطرے پلائے تھے۔
2007 میں اقوام متحدہ کی جانب سے انہیں پاکستان میں پولیو مہم کا ایمبیسڈر مقرر کیا گیا۔ آصفہ بھٹو نے پاکستان میں 70 فیصد پولیو ویکسینیشن کا کام اپنی نگرانی مکمل کروایا۔
پاکستان میں 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران آصفہ بھٹو نے اس قدرتی آفت کے متاثرین کی امداد میں بھرپور حصہ لیا۔
دسمبر 2013 میں فلپائن میں شدید سمندری طوفان ’ٹائیفون ہیا‘' جسے مقامی زبان میں ’یولینڈا‘ کا نام دیا گیا، کے دوران ہلاک یا گُم ہونے والوں کی تعداد سات ہزار سے زیادہ تھی۔
سمندری طوفان سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے آصفہ بھٹو نے 13000 فٹ بلندی سے جمپ لگائی، جسے انہوں نے سوشل میڈیا پر ’جمپ فار ہیومنٹی‘ کا نام دیا۔
امداد کے لیے آصفہ بھٹو نے ڈھائی ہزار امریکی ڈالرز کا ٹارگٹ رکھا تھا، جب کہ اکٹھی ہونے والی رقم 2516 امریکی ڈالر تھے۔
عملی سیاست
آصفہ بھٹو زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں سرگرم ہیں۔ وہ کئی سالوں سے اپنے بھائی بلاول بھٹو اور والد آصف علی زرداری کے ساتھ سیاسی جلسوں میں شرکت کر رہی ہیں۔
آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے اپنے بھائی کے لاہور کے حلقے سمیت سندھ میں پارٹی امیدواروں کے حق میں انتخابی مہم کا آغاز کرکے وہ عملی سیاسی میں قدم رکھ چکی ہیں۔
آصفہ بھٹو بلاول بھٹو کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 127 لاہور سمیت پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی حق میں ریلیاں اور جلسے کر چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ آصفہ نے سندھ میں مختلف شہروں میں انتخابی مہمات چلائیں، جن میں ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہیار کے علاوہ کراچی کے مواچھ گوٹھ، کیماڑی، حب ریور روڈ، چنیسر گوٹھ اور لیاری میں ریلیاں شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سابق رکن سندھ اسمبلی اور بلاول ہاؤس کراچی کے ترجمان سریندر ولاسائی کے مطابق آصفہ بھٹو کو عام انتخابات 2024 میں کسی بھی حلقے پر انتخاب نہ لڑانے کا فیصلہ پارٹی قیادت کا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سریندر ولاسائی نے کہا :’بلاول بھٹو قومی اسمبلی کے ایک سے زائد حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان حلقوں پر کامیابی کے بعد انہیں کوئی ایک نشست رکھنا ہوگی۔ ایسے صورت میں ضمنی انتخابات میں آصفہ بھٹو کو انتخاب لڑایا جائے گا۔
’مگر یہ فیصلہ بھی پارٹی کی مرکزی قیادت ہی کرے گی۔ اس بار انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ پارٹی قیادت نے کچھ سوچ کر ہی کیا ہو گا۔‘
آصف علی زرداری ایک انٹرویو میں بھی اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ آصفہ بھٹو کو ضمنی انتخابات میں انتخاب لڑنے کا موقع دیا جائے گا۔
سیاسی تجزیہ کار اور سندھی زبان کے ٹی وی چینل ’آواز‘ کے اینکر پرسن فیاض نائچ کے مطابق جس طرح پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس تین کیٹیگریز میں قیادت کو رکھا گیا ہے یعنی نواز شریف کے بعد شہباز شریف اور مریم نواز اسی طرح اب پی پی پی نے قیادت کی بھی درجہ بندی کی گئی ہے، جس کے تحت آصف علی زرداری کے بعد بلاول اور پھر آصفہ بھٹو ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے فیاض نائچ نے بتایا: ’آصفہ بھٹو بے نظیر کی طرح دوپٹہ پہن کر جب جذباتی انداز میں تقریر کرتی ہیں تو ناصرف عوام جذباتی اور خوش ہوتے ہیں بلکہ آصفہ کو بے نظیر بھٹو سے مماثلت دیتے ہیں۔
’انتخابات میں چند روز رہنے کے باوجود تاحال روایتی سیاسی سرگرمیاں نظر نہیں آ رہی مگر آصفہ بھٹو کی جانب سے انتخابی مہم چلانے کے بعد کم از کم سندھ میں تو کچھ سیاسی سرگرمی دیکھی جا سکتی ہے۔
آصفہ بھٹو کو فروری کے انتخابات نہ لڑوانے سے متعلق فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے فیاض نائچ نے کہا: ’2013 کے عام انتخابات سے قبل ہی بلاول بھٹو کو سیاسی طور پر متعارف کرا دیا گیا تھا، مگر انہیں 2013 کے انتخابات میں حصہ لینے نہیں دیا گیا۔
’تاکہ پہلے ان کی پھرپور انداز میں سیاسی تربیت ہو اور اس کے بعد انہیں انتخاب لڑوایا جائے۔ ایسا ہی پی پی پی قیادت آصفہ بھٹو کے ساتھ کر رہی ہے۔ تاکہ ان کی تربیت ہو اور بعد میں انہیں انتخابات میں حصہ لینے دیا جائے۔‘
سینیئر سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نگار سہیل سانگی کے مطابق: ’پیپلز پارٹی کی قیادت آصفہ بھٹو کو مریم نواز کی طرح سیاسی طور پر لانا چاہ رہی ہے۔ اس کے لیے ان عام انتخابات میں انہیں حصہ دلانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
’سیاست میں سب پتے ایک ساتھ نہیں کھیلے جاتے، کوئی کارڈ رکھا جاتا ہے کہ وقت آنے پر استعمال کیا جائے۔ آصفہ بھٹو کو انتخابات میں حصہ لینے کی بجائے سیاسی پختگی کے لیے سیاسی جلسے اور ریلیاں کروانا بہت ہے اور وقت آنے پر انہیں بھی انتخابات میں حصہ لینے کا کہا جاسکتا ہے۔‘