امریکی وزیر خارجہ کی سعودی ولی عہد سے ملاقات، غزہ پر گفتگو

امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ غزہ میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور تنازع کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کی اہمیت پر زور دیا۔

سعودی پریس ایجنسی کی طرف سے فراہم کردہ اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (دائیں) پانچ فروری 2024 کو ریاض میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن (بائیں) سے ملاقات کے موقعے پر (اے ایف پی)

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران پیر کو دارالحکومت ریاض میں سعودی قیادت سے ملاقات کی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ایک ایسے وقت میں مشرق وسطیٰ پہنچے ہیں جب فلسطینیوں کو امید ہے کہ غزہ کے سرحدی شہر رفح پر اسرائیلی حملے سے پہلے فائر بندی کا معاہدہ طے پا جائے گا، جہاں غزہ کی نصف آبادی نے پناہ لے رکھی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اینٹنی بلنکن خطے کے اپنے پہلے دورے کے آغاز پر پیر کو سعودی عرب پہنچے، جہاں دارالحکومت ریاض میں انہوں نے سعودی ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان اور اپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان سے ملاقات کی۔

امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ اینٹنی بلنکن اور سعودی ولی عہد نے تنازع کے ’ایک پائیدار خاتمے‘ کے حصول کے لیے علاقائی ہم آہنگی پر تبادلہ خیال کیا۔

میتھیو ملر نے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا: ’امریکی وزیر خارجہ نے سعودی قیادت کے ساتھ غزہ میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور تنازع کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کی اہمیت پر زور دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی قیادت سے ملاقات کے بعد ہوٹل واپسی پر اینٹنی بلنکن نے صحافیوں کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

قطر اور مصر کی ثالثی میں گذشتہ ہفتے سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے غزہ میں فائر بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں، فلسطینی گروپ حماس نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا جو چار ماہ سے جاری جنگ کے مکمل خاتمے کی ضمانت چاہتا ہے۔

اینٹنی بلنکن کے ساتھ طیارے میں سوار ایک سینیئر امریکی اہلکار نے سعودی دارالحکومت کی پرواز کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس (فائر بندی کے معاہدے کے حوالے سے) کوئی پیش رفت ہو گی یا نہیں۔ اس وقت گیند حماس کے کورٹ میں ہے۔‘

اینٹنی بلنکن کے مشرق وسطیٰ کے اس دورے کا مقصد امریکی منصوبوں کی حمایت حاصل کرنا بھی ہے جس میں فائر بندی، غزہ کی تعمیر نو اور اسے چلانا، ایک فلسطینی ریاست کا قیام جسے اسرائیل اب مسترد کرتا ہے اور عرب ممالک کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شامل ہے۔

خطے میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے خلاف امریکی فضائی حملوں کے بعد واشنگٹن مشرق وسطیٰ میں کسی اور جگہ مزید کشیدگی نہیں چاہتا۔

ادھر لندن میں برطانوی وزیر دفاع گرانٹ شیپس نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ فضائی حملوں سے یمن کی حوثی ملیشیا کی بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے لیکن خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔

’مکمل فتح‘ کا دعویٰ اور اس کی تردید

دوسری جانب اسرائیل نے مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر واقع ایک چھوٹے سے شہر رفح پر ایک نئے زمینی حملے کی دھمکی دی ہے جہاں غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے نصف سے زیادہ نے اسرائیلی جارحیت کے بعد سے عارضی خیموں میں پناہ لے رکھی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے پیر کو غزہ میں اسرائیلی فوجیوں سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فورسز نے حماس کے نصف سے زیادہ جنگجوؤں کو مار ڈالا یا زخمی کر دیا ہے اور ان کی فوج ’مکمل فتح‘ تک ’جنگ‘ جاری رکھے گی۔

اس بیان کے ردعمل میں حماس کے سینیئر عہدیدار سامی ابو زہری نے نتن یاہو کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’مکمل فتح کا بیان محض ایک کھیل‘ ہے۔

فائر بندی کی تجویز کے مطابق کم از کم 40 دن کی جنگ بندی کے لیے حماس اپنے زیر حراست باقی ماندہ قیدیوں میں سے عام شہریوں کو آزاد کرے گا جس کے بعد فوجیوں اور لاشوں کے حوالے کرنے کے بعد کے مراحل ہوں گے۔

اس دوران غزہ کے وسطی شہر خان یونس میں اسرائیلی ٹینک دو ہفتوں سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ پٹی کے شمال میں غزہ شہر میں بھی لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ اسرائیل نے اس سے قبل ان علاقوں کو ’فتح‘ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اسرائیلی بمباری جاری

اسرائیلی فوج نے پیر کو کہا کہ اس کی فورسز نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شمالی، وسطی اور جنوبی غزہ میں درجنوں فلسطینی جنگجوؤں کو مار دیا ہے۔

پیر کی شب خان یونس کے رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے جنوب میں کام کرنے والے سب سے بڑے ناصر ہسپتال کے ارد گرد گولہ باری تیز کر دی، جس سے کچھ مکانات کو آگ لگ گئی۔

فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے دو ہفتے تک محصور رہنے کے بعد تقریباً آٹھ بے گھر افراد کو خان یونس اور العمل ہسپتال میں واقع اس کے ہیڈکوارٹر سے نکال لیا گیا ہے۔

ہسپتال میں صرف 40 بزرگ افراد، 80 مریض اور 100 انتظامی اور طبی عملہ باقی بچ گیا ہے۔

فلسطینیوں نے غزہ شہر میں خاص طور پر اسرائیلی جنگی جہازوں کی بمباری کی زد میں بحیرہ روم کے ساحل کے قریب علاقوں میں شدید لڑائی کی تصدیق کی ہے۔

دوسری جانب فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی امدادی تنظیم یو این آر ڈبلیو اے نے کہا کہ وہاں جانے والے خوراک کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا تاہم اس حملے میں کوئی کارکن زخمی نہیں ہوا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا