پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلے انتخابات ہیں جن میں دھاندلیوں کی گونج نہ صرف ملک کے کونے کونے سے آ رہی ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شور مچ رہا ہے۔
پاکستان میں کچھ لوگ بضد ہیں کہ انتخابات میں جیت مسلم لیگ نواز کی ہوئی ہے جبکہ انٹرنیشنل لیول پر کچھ اور ہی کہا جا رہا ہے۔
دھاندلیوں کے حوالے سے ہر الیکشن میں الزامات لگائے جاتے ہیں اور جیتنے والے کو الیکٹڈ کی بجائے سلیکٹڈ کہا جاتا ہے، کورٹ کچہری ہوتی رہتی ہے لیکن اس بار کچھ مختلف ہے۔
اس بار تو وہ امیدوار جو انتخابات میں جیت کر آئے ہیں وہ اپنی سیٹیں واپس کر رہے ہیں کہ وہ ایسی سیٹ پر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیوں میں نہیں بیٹھنا چاہتے جو انھوں نے جیتی ہی نہیں ہیں۔
دوسری جانب ایسے امیدوار بھی سامنے آئے جن کو جتوانے کی تو آفر کی گئیں لیکن انھوں نے اس آفر کو ٹھکرا دیا کہ وہ اگر ہار چکے ہیں تو دھاندلی سے جیتنے کا کیا فائدہ۔
اب اس سے زیادہ کیا ثبوت سامنے آئے کہ امیدوار خود کہہ رہے ہیں کہ وہ نہیں جیتے یا ان کو جتوانے کی آفر کی گئی تھی۔ لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ کس کے حق میں ہیں۔
اب حکومت کون بنائے گا اور کون نہیں اس حوالے سے دعوے آ رہے ہیں۔ ایک طرف مسلم لیگ نواز ہے جو اگرچہ آٹھ فروری کو وکٹری سپیچ کرنے کی تیاری میں تھی اور پھر رکنا پڑا لیکن نو فروری کو دیگر سیاسی جماعتوں کو اس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی دعوت دی۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ وفاق اور پنجاب میں بھی حکومت بنائیں گے۔
مختصراً نہ تو کسی صوبے میں اور نہ ہی وفاق میں کسی کی حکومت بنی ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ عوام کے فیصلے کا احترام کیا جائے۔
ووٹ اور ووٹ دینے والوں کے فیصلے کو عزت دینے کا وقت آ چکا ہے اور اب یہ عزت صرف نعروں کی حد تک نہیں رہے۔ اور کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عوام کے فیصلے کے خلاف جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جو کچھ نو مئی کو ہوا وہ بہت افسوس ناک تھا اور قابل مذمت تھا لیکن جو اب ہو رہا ہے وہ بھی قابل مذمت ہے۔
عدلیہ سے لے کر الیکشن کمیشن اور تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر مقتدرہ اداروں کو مل کر یہ بحران ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ وقت نہیں ہے کہ اپنے آپ کو چیف جسٹس ایلون رابرٹ کورنیلیئس ظاہر کریں جو آپ نہیں ہیں، کسی کو اپنے آپ کو ٹی این سیشن ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سب کو کیا آپ کو خود معلوم ہے کہ وہ آپ نہیں ہیں، اپنے آپ کو جمہوریت کے علمبردار کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو کہ ہم سب یعنی عوام کو معلوم ہے کہ وہ آپ میں سے کوئی نہیں ہے۔
ہاں البتہ عوام کو ایک بات معلوم ہو چکی ہے کہ ’ووٹ بہترین انتقام ہے‘ اور انھوں نے اپنا انتقام بیلٹ باکس کے ذریعے لیا۔ دھاندلی زدہ نتائج کو جتنا صحیح نتائج کے طور پر پیش کیا جائے گا.
یہ انتقام مزید بڑھتا جائے گا اور عوام اور سرکار میں فاصلے مزید بڑھتے چلیں جائیں گے۔
جب میں یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں تو ملک کے مختلف علاقوں میں عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر اپنے ووٹ کی عزت کے لیے نکلی ہوئی ہے۔ یہ فاصلے کم کرنے کی اشد ضرورت ہے ملک کے لیے، جمہوریت کے لیے اور ہم سب کے مستقبل کے لیے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔