پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ترجمان نے ہفتے کو کہا ہے کہ رواں ہفتے ٹورنٹو جانے والی پرواز کے عملے کے مزید دو ارکان کے کینیڈا میں لاپتہ ہونے کے بعد پی آئی اے نے ملک کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور کینیڈین امیگریشن حکام سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دو سال میں پیش آنے والا دسواں واقعہ ہے۔ یہ صورت حال ایسے وقت پیدا ہوئی ہے جب حالیہ برسوں میں یورپ اور شمالی امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک میں غیر قانونی طریقوں سے پہنچنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ملک کے ابتر معاشی حالات ہیں۔
29 فروری کو ٹورنٹو جانے والی پرواز پی کے 782 میں سوارجبران بلوچ واپس نہیں آئے جب کہ ٹورنٹو جانے والی مریم رضا کراچی آنے والی پرواز پی کے 784 پر واپس نہیں پہنچیں۔
گذشتہ سال جون میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے 350 تارکین وطن سمیت 750 سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو لے جانے والا ٹرالر یونان کے قریب ڈوب گیا تھا جس کے بعد پاکستانی حکام نے انسانی سمگلروں کے خلاف تعاون بڑھانے اور مستقبل میں اس طرح کے سانحات سے بچنے کے لیے یونانی حکام کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ خان نے دونوں واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایئرلائن نے متعدد اقدامات کے بعد لاپتہ عملے کی تلاش اور اسے واپس لانے کے لیے ایف آئی اے اور کینیڈین امیگریشن حکام سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
خان نے عرب نیوز کو بتایا: ’اب ہم ایف آئی اے اور کینیڈین امیگریشن حکام کے ذریعے کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘
تازہ واقعہ پی آئی اے کی پرواز پی کے 781 کی فضائی میزبان فائزہ مختار کے جنوری میں کینیڈا میں لاپتہ ہونے کے ایک ماہ بعد پیش آیا ہے۔
خان نے کہا کہ اس سال اس طرح کے تین واقعات پیش آئے۔ شمالی امریکی ملک میں ’لاپتہ‘ ہونے والے ایئر لائن کے عملے کی تعداد اب 10 تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے اس عمل کو ’سیاسی پناہ تک آسان رسائی اور عام لوگوں کے ملک سے فرار کی کوشش کا عمومی رجحان قرار دیا۔‘
حال ہی میں کینیڈا میں پی آئی اے کے دو ملازمین سٹیورڈ جبران بلوچ اور ایئرہوسٹس مریم رضا کی گمشدگی سے ملک میں سفید پوش طبقے میں ملک چھوڑنے کے نمایاں رجحان کی نشاندہی ہوتی ہے۔
خان نے کہا کہ پی آئی اے نے صورت حال سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جس میں عملے کی سوچ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا اور 50 سال اور اس سے زیادہ عمر کے عملے کو بیرون ملک بھیجنا اور وہاں پہنچنے پر پاسپورٹ سٹیشن مینیجر کے پاس جمع کروانا شامل ہے لیکن کوئی بھی اقدام عملے کے ارکان کو غائب سے روکنے میں مؤثر ثابت نہیں ہوا۔‘
پاکستان کو گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ مہنگائی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ مقامی کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی ہے اور اخراجات غیر معمولی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
اس صورت حال نے بہت سے نوجوان پاکستانیوں کو بیرون ملک مواقعے کی تلاش میں زندگیاں خطرے میں ڈال کر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔