بلوچستان: کوئلے کی کان دب جانے سے 12 مزدور جان سے گئے

چیف انسپیکٹر مائنز بلوچستان غنی بلوچ نے بتایا کہ ’واقعے کی وجہ کاربن مونو آکسائیڈ گیس کا جمع ہونا تھا جس کے بعد ایک دھماکہ ہوا اور مزدور کان میں پھنس گئے۔‘

حکومت کے کان کنی کے محکمے کے ساتھ ساتھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کی ریسکیو ٹیمیں بھی جائے وقوع پر موجود ہیں (انسپیکٹوریٹ آف مائنز بلوچستان فیس بک پیج)

صوبہ بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے علاقے خوست میں حکام کے مطابق منگل کی شام کوئلے کی کان میں گیس بھر جانے سے دھماکے کے نتیجے میں دب جانے والے 12 مزدوروں کی لاشیں آج (بدھ کی) صبح نکال لی گئیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چیف انسپیکٹر مائنز بلوچستان غنی بلوچ نے بتایا کہ ’واقعے کی وجہ کاربن مونو آکسائیڈ گیس کا جمع ہونا تھا جس کے بعد ایک دھماکہ ہوا اور مزدور کان میں پھنس گئے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’رات کو دو لاشیں نکالی گئیں جبکہ صبح 10 لاشیں برآمد ہوئیں۔ ریسکیو کارروائیاں تمام 12 لاشوں کی برآمدگی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئی ہیں۔‘

اے ایف پی کے مطابق حادثے کے بعد دیگر مزدوروں نے بھی اپنی مدد آپ کے تحت اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے کام شروع کیا تھا۔ ان کوششوں کے دوران آٹھ افراد پر مشتمل ایک گروپ بھی کئی گھنٹوں تک کان میں پھنسا رہا تاہم سرکاری ریسکیو ٹیم نے انہیں وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔

حکومت کے کان کنی کے محکمے کے ساتھ ساتھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کی ریسکیو ٹیموں نے بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل کان کنی عبداللہ شاہوانی نے بھی اموات کی تصدیق کی۔

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کوئلے کی کان میں دھماکے کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے نقصان پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کان کنوں کے ریسکیو کی کوششوں کو تیز تر کرنے اور حادثے کے نتیجے میں زخمی کان کنوں کو ہر ممکن طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک ہیں۔ ’غم کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ حکومت زخمیوں اور متاثرہ خاندانوں کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرے گی۔‘

بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں اکثر اوقات آگ لگنے، کان بیٹھ جانے اور زہریلی گیس بھر جانے کے باعث مزدوروں کی اموات ہوتی ہیں۔

2021 میں بلوچستان میں مارواڑ، ہرنائی اور دیگر علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں ہونے والے تین بڑے حادثات کے نتیجے میں 22 مزدوروں کی اموات ہوئیں جبکہ 2020 میں بھی اسی قسم کے حادثات کے نتیجے میں 100 سے زائد کان کن جان سے گئے تھے جن میں سے 52 اموات ضلع دکی میں ہوئیں۔

بلوچستان کے آٹھ اضلاع میں سات ہزار کانوں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ ایک لاکھ مزدور ہزاروں فٹ زیر زمین جا کر روزانہ سینکڑوں ٹن کوئلہ نکالتے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان