پاکستان میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ٹیم پروگرام کے پیش نظر آئندہ ہفتے حکومتی نمائندگان سے مزید مشاورت کرے گی، تاہم اس حوالے سے یہ پہلو اہم ہے کہ پاکستان کی مالی معاہدے سے توقعات کیا ہیں؟
پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایسٹر پیرز نے انڈپینڈنٹ اردو کو جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ آئندہ ہفتے پاکستان میں آئی ایم ایف مشن چیف نیتھن پورٹر کی قیادت میں ٹیم اگلے مرحلے پر مشاورت کے لیے حکام سے ملاقات کرے گی۔ اس کا مقصد بہتر گورننس اور جامع و مضبوط اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھنا ہے جس سے تمام پاکستانیوں کو فائدہ ہوگا۔
اس سے قبل وفاقی وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ گذشتہ روز ہونے والے اجلاس سے متعلق اعلامیہ جاری کیا تھا۔ اس اجلاس کا مقصد ’فنڈ کے حوالے سے مزید بات کا آغاز‘ کرنا تھا۔
اجلاس میں وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف ٹیم کو سٹینڈ بائے ارینجمنٹ کے دوران میکرو اکنامک اشاریے میں بہتری سے متعلق آگاہ کیا اور حکومت کی جانب سے اصلاحاتی ایجنڈے کو جاری رکھنے اور اس میں توسیع کے لیے زور دیا تھا۔
ملک میں جہاں ایک جانب چند روز میں آئندہ سال کا مالیاتی بجٹ پیش ہونا ہے وہیں دوسری جانب مہنگائی بشمول بجلی کے بلز اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کیے جا رہے ہیں۔
ایسے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اس صورت حال میں پاکستان کی آئی ایم ایف سے توقعات کیا ہیں؟ کیا پاکستان اور آئی ایم ایف جلد کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں؟ آئندہ مالی سال کے بجٹ پر ان مذاکرات یا نئے ممکنہ معاہدے کے کیا اثرات ہوں گے؟ ممکنہ معاہدے سے قبل پاکستان کو کیا اصلاحات یا کام کرنے ہوں گے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے معاشی ماہرین سے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی۔
معاشی ماہر اور ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد سلہری نے ممکنہ معاہدے کو توانائی کے شعبے پر کام اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے سے مشروط کیا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا پاکستان کی آئی ایم ایف سے توقعات میں ادائیگی کے عدم توازن کو عبور کرنا ہے۔
’آئندہ تین مالی سالوں میں پاکستان کو تقریبا 22 ارب ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری چاہیے ہوگی اور یہ اس وقت تک نہیں مل سکے گی جب تک ملک کے پاس آئی ایم ایف کا لیٹر آف کمفرٹ نہ ہو۔ اس کا مطلب ملک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بڑھ جائیں۔‘
عابد سلہری نے کہا انہیں نہیں لگتا اس وقت ملک اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کو لے کر کوئی بڑا چیلنج ہے۔
’جون کے آخر یا جولائی کے اوائل میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا جانا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کسی بھی نئے پروگرام کی مدت سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی، جغرافیائی اور سیاسی پہلو ہیں جنہیں مد نظر رکھتے ہوئے کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ تاہم جون کے آخر یا جولائی کے اوائل میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا جانا چاہیے۔
عابد سلہری نے پروگرام سے متعلق اعتماد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، نگران اور موجودہ حکومت نے گذشتہ سٹینڈ بائے اگریمنٹ کو دیکھا، ’یہ پہلا ایسا پروگرام ہے جو استثنیٰ لیے بغیر مکمل ہوا ہے جو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایک ٹیکنوکریٹ کو وزیر خزانہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس پروگرام اور اعتماد کی فضا کو آگے لے کر چلیں اور اس میں بہتری لے کر آئیں۔‘
انہوں نے کہا آئندہ مالی سال کا بجٹ ملک کی جانب سے عزم کا عملی اظہار ہوگا۔
’خسارے میں جانے والے پبلک سیکٹر ادارے، ٹیکس میں چھوٹ، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے سمیت کئی اہداف اگلے بجٹ کا حصہ بنیں گے اور انہی اقدامات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلا پروگرام حتمی صورت اختیار کرے گا۔‘
ممکنہ معاہدے سے قبل اصلاحات کرنے پر عابد سلہری نے کہا نگران حکومت کے دور سے اصلاحات پر کام شروع کر دیا گیا تھا جس میں بجلی کے بلز میں اضافہ، پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کے نجکاری کے عمل کا آغاز بھی شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ معاہدے کے لیے توانائی کے شعبے پر کام کرنا اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا۔
معاشی ماہر خالد ولید نے کہا آئندہ مالی سال کا بجٹ مشکل ہوگا جس میں عمومی سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان کی توقعات میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی پروگرام چار سے پانچ سال رہنا ہے، اور سماجی بہبود کے پروگرام کی اجازت دینا شامل ہے جس سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دی جائے گی۔ ساتھ ہی اس سے دیگر ممالک کا پاکستان میں اعتماد بڑھنے کی توقع ہے۔‘
قرض کے نئے پروگرام کے لیے درکار وقت سے متعلق خالد ولید نے کہا وزیر خزانہ کے امریکہ دورے کے بعد معاملات حتمی صورت اختیار کر جائیں گے، جس کے بعد ممکنہ طور پر جولائی یا اگست میں پاکستان اور آئی ایم ایف معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔
ممکنہ معاہدے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے خالد ولید نے کہا آئندہ مالی سال کا بجٹ ایک مشکل بجٹ ہوگا جس میں عمومی سبسڈی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، اس سے صارفین پر بوجھ بڑھے گا تاہم ساتھ ہی جامع بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر بھی مذاکرات کیے جا رہے ہوں گے۔
معاہدے سے قبل اصلاحات کرنے سے متعلق انہوں نے کہا پاکستان نے سٹینڈ بائے ارینجمنٹ پروگرام پر کام کیا اور گردشی قرضے نہیں بڑھنے دیے، اس کے علاوہ سبسڈی کو کم کرنا اور نجکاری شامل ہیں۔
خالد ولید نے کہا پاکستان کو ان اصلاحات کو آگے بڑھانا ہوگا تاکہ ملک سٹرکچرل اصلاحات پر عمل درآمد کر سکے جس کا فائدہ ملکی معیشت کو ہوگا۔