وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بدھ کی رات خیبر پختونخوا میں سوات کے علاقے مدین میں مشتعل ہجوم کی جانب سے توہین قرآن کے الزام میں ایک سیاح کو پولیس سٹیشن سے نکال کر مار ڈالنے کے واقعے کو ’پوری قوم کے لیے شرم ساری‘ کا باعث قرار دیا ہے۔
انہوں نے اتوار کو قومی اسمبلی کے فلور پر خطاب میں کہا کہ ملک میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات پوری قوم کے لیے شرم ساری کا باعث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے معاملے پر اس وقت ایوان میں اتفاق رائے ہونا چاہیے کیونکہ یہ کوئی سیاسی یا متنازع مسئلہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے جبکہ اپوزیشن سنجیدہ نہیں، ہمیں گالیاں دی جا رہی ہیں، یہ انتہائی شرم کی بات ہے۔
’ہم اس حوالے سے ایک قرارداد پیش کرنا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اقلیتیوں کے رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مسلمانوں کا حق ہے یہ ملک کسی ایک اکثریت کا نہیں ہے یہ ملک سارے پاکستانیوں کا ہے چاہے وہ مسلمان ہو عیسائی ہوں سکھ ہوں یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہمارا آئین اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیتا ہے۔‘
وزیر دفاع نے کہا کہ سوات، فیصل آباد اور سرگودھا جیسے واقعات لمحہ فکریہ ہے۔ ’جب اس موضوع پر پاکستان کی سب سے بڑے ایوان میں بات کی جاتی ہے تو اپوزیشن نعرے بازی کر کے اس آواز کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرتی ہے۔‘
23 نامزد ملزمان گرفتار
سوات کے ضلعی پولیس سربراہ (ڈی پی او) ڈاکٹر زاہد اللہ نے اتوار کو بتایا کہ مدین میں مبینہ توہین قرآن کے ملزم کو قتل کرنے اور پولیس سٹیشن پر حملے کے کیس میں اب تک 23 نامزد ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ریجنل پولیس افسر (ملاکنڈ ڈویژن کے پولیس سربراہ) علی محمد نے جمعے کو مدین میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ واقعے کے دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مقدمہ مقتول کے خلاف توہین مذہب کا درج کیا گیا جبکہ دوسرا مقدمہ پولیس سٹیشن میں تھوڑ پھوڑ اور سامان کو نقصان پہنچانے پر مشتعل افراد کے خلاف درج کیا گیا۔
ڈاکٹر زاہد اللہ نے آج انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اب تک اس مقدمے میں نامزد 23 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ اس واقعے میں ملوث 49 معلوم اور 2500 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’واقعے میں ملوث مزید افراد کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔‘
سوات پولیس نے بتایا کہ مشتعل افراد پر درج مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302 , 324 ,353 ,341 ,427 ,436 ,186 ,148 اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ دفعات مختلف نوعیت کے جرائم کے حوالے سے ہیں، جن میں قتل اور اقدام قتل، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، کار سرکار میں مداخلت، کسی کو غیر قانونی طریقے سے زدوکوب کرنا، ریاست کے خلاف بغاوت اور سرکاری تفتیش میں خلل ڈالنا شامل ہیں۔
ہفتے کو اس واقعے کے تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی بنائی گئی ہے۔
ڈی پی او آفس سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ کمیٹی کی سربراہی ایس پی انویسٹیگیشن بادشاہ حضرت کریں گے جبکہ دیگر ارکان میں پولیس کے تفتیشی افسران، سپیشل برانچ، سی ٹی ڈی کے حکام اور آئی ٹی ماہرین شامل ہیں۔
گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے الزام میں ایک سیاح پر تشدد اور قتل کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ایوان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہفتے کو قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ’اگر کوئی ایک واقعہ ہوتا تو درگزر کیا جا سکتا تھا، لیکن یہ واقعات کا ایک تسلسل ہے۔
’سیالکوٹ میں اس قسم کا واقعہ ہوا، جڑانوالہ میں ایسا واقعہ پیش آیا، سرگودھا میں ہوا، اچھرہ میں ہم اس قسم کے واقعے سے بچ نکلے۔‘
وفاقی وزیر نے کہا: ’میری استدعا ہے کہ ایوان کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ہمارا معاشرہ ایک ایسی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے جہاں سڑکوں پر انصاف (سٹریٹ جسٹس) کیا جا رہا ہے، موب لنچنگ (ہجوم کے ہاتھوں تشدد) کے ذریعے دین کے نام کو استعمال کر کے آئین، قانون اور ریاست کے تمام بنیادی اصولوں کو پیروں تلے روندتے ہیں۔‘
مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارا جانے والا سیاح کون تھا؟
جمعے کو پولیس نے مارے گئے شخص کی تفصیلات بھی ظاہر کی تھیں۔ ڈاکٹر زاہد اللہ کے مطابق مقتول محمد سلیمان کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مقتول نشے کا عادی تھا جبکہ خاندان والوں نے نومبر 2023 میں ان سے بذریعہ اخباری بیان اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔