ہم ظالم ترین لوگوں میں سے ہیں، رحم ہمارے دلوں سے اٹھا لیا گیا ہے اور گھناؤنے وسوسے اس کی جگہ ہمارا کُل اثاثہ ہیں۔
سارہ شریف کے والد نے پاکستان اترتے ساتھ لندن پولیس کو فون کر کے پتہ ہے کیا کہا تھا؟ ’میں نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا ہے۔ میں اسے مارنا نہیں چاہتا تھا لیکن میں نے اسے کچھ زیادہ پیٹ دیا۔ میں اپنی بیٹی کو صرف سزا دینا چاہتا تھا۔‘
کیا ہمارے یہاں بچے ’صرف سزا‘ کے لیے اتارے جاتے ہیں؟ میں سارہ شریف کو مارے جانے کا حال صرف ایک خبر میں پڑھ کے سو نہیں پا رہا ٹھیک سے لیکن مجھے بالکل علم نہیں کہ کبھی کسی منبر سے اسے یاد کیا گیا ہے یا نہیں، کوئی موم بتیوں والا جلوس پاکستان سے اس کی یاد میں نکلا کہ نہیں، ہم دنیا کے لیے رحم کا پرچار کرتے ہیں مگر آج، دنیا ہمیں قصاب سمجھتی ہے، اور وہ حق پر ہے۔
سارہ شریف پر ہونے والا تشدد اس قدر گھناؤنا اور انسانیت سے گرا ہوا تھا کہ اس کی جتنی تفصیل پڑھتے جائیں اتنا دل خراب ہوتا جائے گا لیکن اس سے عام آدمی کوئی نتیجہ نہیں نکال پائیں گے۔ استغفرللہ پڑھیں گے، سوچیں گے کہ ’ہم تو ایسے نہیں ہیں‘ اور آگے نکل جائیں گے۔
نتیجہ نکالنا ضروری ہے اور بلاشک واحد نتیجہ یہ ہے کہ مار پیٹ ہی پرتشدد انسان کو جنم دیتی ہے اور پاکستان کا حال جو اس وقت ہے، اس میں بہت زیادہ ہاتھ صرف اور صرف اس والدینی تشدد کا ہے، ان کے بعد استادوں کا نمبر آتا ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے پیسے کمانے کے لیے باہر ملکوں میں جاتے ہیں لیکن صدیوں پرانے اپنے ہتھیار بھی ساتھ باندھ کر وہاں اترتے ہیں۔ ہمارے بچے باہر کے سکولوں میں مس فٹ ہوتے ہیں، ہمارے گھر ان کے دوستوں کے لیے ممنوع علاقہ ہوتے ہیں۔
باہر کی بات چھوڑیں ادھر پاکستان کی بات کریں، کون سا بچہ ایسا ہے آپ سب میں سے جو دعویٰ کر سکے کہ ماں باپ نے آج تک اسے ہاتھ نہیں لگایا؟ کبھی مارا نہیں؟ اور مزے کی بات یہ کہ آپ آج بھی یہی سمجھتے ہوں گے کہ وہ مار اصلاح کے لیے تھی؟
ہمیں پڑھایا، لکھایا، سکھایا یہی جاتا ہے کہ ماں باپ کا ہاتھ اٹھانا ایک بالکل نارمل بات ہے بلکہ ان کا حق ہے لیکن اصل میں یہ تشدد کو صرف نسل در نسل ٹرانسفر کرنے کا ایک سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے۔
بچہ اپنے بڑوں سے سیکھتا ہے، اپنے ماحول سے سیکھتا ہے، اپنے خاندان سے سیکھتا ہے، تو وہ بچہ جو آپ کا باپ ہے یا وہ بچی جو آپ کی ماں ہے، اور انہوں نے آپ کو مارا بچپن میں، تو یہ صرف تشدد کی وہ روایت ہے جو کئی نسل سے چلتی آ رہی ہے اور آپ تک ’بحفاظت‘ پہنچ چکی ہے۔
آپ بچے کو تب مارتے ہیں جب آپ ان کی کسی حرکت سے تنگ آ جاتے ہیں، یہ ’تنگ آنا‘ دراصل آپ کی مایویسی ہوتی ہے، پھر اس دوران آپ کے ذاتی، مالی، معاشرتی، کئی دوسرے مسائل ساتھ چل رہے ہوتے ہیں جن کی مجموعی جھلاہٹ کا نشانہ وہ بچہ بنتا ہے جس پر آپ ہاتھ اٹھا رہے ہیں، اور وہ بچہ، چند مرتبہ مار کھانے کے بعد خود بھی ایسا کرنے کو ساری عمر نارمل سمجھتا ہے۔
کبھی سوچا بچوں پر ہاتھ کیوں اٹھایا جاتا ہے؟ انہیں ڈانٹا کیوں جاتا ہے؟ کیا یہ اس لیے تو نہیں کہ وہ آسان ترین ہدف ہوتے ہیں؟ آپ خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ بھئی ’ہمارے بچے ہیں، ہم مارتے ہیں تو پیار بھی تو کرتے ہیں۔‘ لیکن آپ دنیا میں کسی بھی دوسرے انسان کے ساتھ اپنے ہوش و حواس میں کیا ایسا سلوک کر سکتے ہیں؟
میری نسل کی اولادوں میں دیکھوں تو کوئی شک نہیں کہ وہ نفسیاتی طور پہ عین اسی جگہ ماں باپ کو ہٹ کریں گے جہاں باہر کی دنیا میں کوئی بھی انسان نہیں پہنچ سکتا لیکن مار پیٹ؟؟؟ ہرگز اس کا حل نہیں، اس سے معاملات شدید ترین خراب ہوں گے، ٹھیک ہونے کا امکان دور دور تک نہیں بچے گا۔
سوچیں کہ اگر اولاد آپ کی مار پیٹ سے بھی خوفزدہ نہ رہے تو اس کا مطلب کیا ہو گا؟ یہ کہ وہ ایسے تماشے دیکھ دیکھ کے عادی ہو چکے ہیں اور اب وہ آپ کی عزت نہیں کرتے، انہیں آپ سے پیار نہیں ہے، وہ صرف آپ سے خوفزدہ ہیں۔ جب وہ مالی طور پہ آپ کے سائے سے نکل جائیں گے، خود کفیل ہوں گے، تب آپ کا ان سے رشتہ کیا رہ جائے گا؟
غصہ آپ سے دماغ چھین لیتا ہے، یہ کسی نشے سے بھی زیادہ خطرناک کیفیت ہے، ایک نارمل انسان، وہ کسی بچے کا باپ ہو یا نہ ہو، کیا وہ ایسا تشدد اپنی اولاد پہ کر سکتا ہے جیسا سارہ شریف کے والد نے کیا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ میں پاکستانی ہوں اس لیے میں نے اس قسم کا تشدد اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے۔ ایک مرتبہ میرے بچپن میں، جب دوست کے والد نے اسے میرے سامنے پتلون اتروا کے پشت پہ بیلٹ سے مارا تھا اور دوسری مرتبہ پولیس لائنز ملتان میں جہاں این سی سی کے دنوں میں بندوق صفائی سیکھنے کو لے جایا گیا اور سامنے صحن میں چارپائی سے باندھ کے ملزم کو جسم پر عین اسی جگہ اور اسی حالت میں چمڑے کے ’لتر‘ سے پولیس والے مار رہے تھے۔
کسی بھی قسم کا تشدد ہمارے یہاں بالکل نارمل ہونا کیا بذات خود ایک گھناونی ترین خطرناک بات نہیں ہے؟
یہی سب ’تعلیمات‘ ہمارا ایک عام نوجوان لے کے باہر جاتا ہے، پھر جب وہ کسی کا پریشانی کا شکار ہو، بچوں کو اپنے دیسی کلچر کی روایتوں میں فٹ نہ کر پا رہا ہو، روزگار کی مایوسی ہو، شریک حیات سے جھگڑا ہو، کسی دوسرے مسئلے کا شکار ہو تو اسے آسان ترین ٹارگٹ بچے ہی لگتے ہیں اور ان سے مار پیٹ کرنے کی جسٹیفیکیشن اس کے دماغ میں وہی ہوتی ہے جو شاید اس کے ماں باپ کے دماغوں میں تھی۔
اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں، قانون میں، پورے نظام میں اتنی سختی ہو کہ اگر ایک بچے پر ماں باپ تشدد کرتے ہیں تو وہ خود ان کی رپورٹ کروا سکے، اس رپورٹ پر سنجیدہ کارروائی ہو، اور جب تک یہ ممکن نہیں تب تک ایسے تشدد کو نارمل نہ سمجھا جائے اور ماں باپ اپنے غصے کو سنجیدہ لگامیں ڈالیں۔
(بچوں کے لیے خصوصی پیغام: بیٹا اس سلسلے میں ایک وکیل صاحبہ سے میں نے بات کی، ان کا نام ماہ نور ناصر راٹھور ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی قانون میں گنجائش موجود ہے، الگ سے ایک چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2017 بھی موجود ہے، اگر بچے پر کوئی تشدد ہوتا ہے تو وہ ماں باپ کے خلاف پولیس میں درخواست جمع کروا سکتا ہے، لیکن اگر وہ 18 سال سے کم عمر ہے تو اسے مدعیت چاہیے ہو گی۔ متعلقہ تھانے کے اے ایس آئی کی مدعیت میں بھی درخواست جمع کروائی جا سکتی ہے۔ اگر آپ گھر میں کسی بھی قسم کے تشدد کا شکار ہیں تو ریاست آپ کی مدعی یا آسان زبان میں قانونی وارث ضرور بنے گی۔)
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔